بارہ بھائیوں کی شہزادی اور پری
بارہ بھائیوں کی شہزادی اور پری
اسلام علیکم پیارے دوستو ایک تھی رانی اس کے بارہ لڑکے تھے راجہ کو بہت ارمان تھا کہ اس کی ایک لڑکی بھی ہوتی لیکن خدا کی مرضی ایسی کہ ہر مرتبہ رانی کے ہاں لڑکا ہی پیدا ہوتا یہاں تک کہ لڑکے تو بارہ ہو گئے اور لڑکی ایک بھی نہ ہوئی راجہ نے غصے میں آ کر کہا اگر اس بار لڑکی پیدا ہوئی تو میں ان بارہ لڑکوں کو مار ڈالوں گا
اور ساری دولت اسی کو ملے۔ یہ سوچ کر راجہ نے لڑکوں کے لئے بارہ بڑے بڑے سندھوک بنوائے تاکہ جیسے ہی لڑکی پیدا ہو ان لڑکوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں سندھوک میں رکھ دے ہر سندھوک میں ایک ایک کفن بھی رکھ دیا رانی یہ سب دیکھ کر بہت روئی پیٹی سارا دن اسے روتے ہوئے گزر گیا اسے کوئی چیز بھی اچھی نہ لگی آخر ایک دن چھوٹے لڑکے نے پوچھا کہ امی تم
اور یہ کہہ کر ٹالنا چاہا کہ کچھ نہیں یوں ہی رو رہی ہوں لیکن لڑکہ نہ مانا وہ بار بار زد کر کے ماہ سے رونے کی وجہ پوچھنے لگا آخر تنگ آ کر ماہ بچے کو اس کمرے میں لے گئی جہاں صندوق کفن کے ساتھ رکھے ہوئے تھے ماہ نے بچے کو صندوق کفن دکھلائے اور بتایا کہ یہ سب کچھ تم بھائیوں کے لئے ہے راجہ نے کہا ہے کہ اب اگر کوئی لڑکی پیدا ہو گئی تو تم سارے بھائیوں کو مار ڈالے گا
اور تمہاری لاشے سندوق میں بند کر کے رکھ دی جائیں گی۔ یہ سن کر لڑکے نے ماں کو دسلی دی اور کہا کہ تم رو نہیں ہم اپنی مدد آپ کریں گے اور کسی نہ کسی طرح اپنی جان بچائیں گے۔ ماں نے لڑکے کو پیار کیا کہ بیٹا تم اپنے سب بھائیوں کو لے کر جنگل میں نکل جاؤ اور جو سب سے اوچا درخت ہوس پر چڑ جاؤ پہاں سے شاہی مہل کی برجےوں کو دیکھتے رہا کرو اگر میرے ہاں لڑکی پیدا ہوئی تمہیں س
لال جھنڈھا گڑوادھوں گی اور لڑکا ہوا تو سفید جھنڈھا لگوادھوں گی تم لال جھنڈھا دیکھنا تو مہل کی طرف ہرگز نہ آنا اور اگر سفید دیکھنا تو واپس آ جانا دوسری دن صبح کو ماں نے ہر لڑکے کو کلجے سے لگایا پیار کیا اور جنگل کی طرف ربانہ کر دیا لڑکوں نے جنگل میں پہنچ کر ایک جھوپڑا بنایا اور وہ اسی میں رہنے لگے ایک ایک دن ہر لڑکا باری باری سے درخت کی سب سے اون
کہ سفید جھنڈا لیرا رہا ہے یا لال باقی دوسرے بھائی جنگل میں ادوردور چلے جاتے اور ہرن بغیرہ کا شکار کر کے لاتے اور اس کا گوشت بون کر سب بھائی رات کو کھاتے اور پھر اسی طرح جھوپڑے میں سو جاتے اسی طرح لڑکوں نے کئی برس جنگل میں گزار دئیے ایک دن چھوٹا بھائی درکت کے سب سے اونچی شاک پر بیٹھا ہوا تھا کہ اسے ایک دم شاہی مہل کی چھوٹی پر لال جھن
رات کو جب سب بھائی کٹھا ہوئے تو چھوٹے بھائی نے لال جھنڈے کی خبر سنائی سب بھائیوں نے مل کر سلام اشورے سے یہ تحقیعہ کہ میں ایسے ایک لڑکی کی وجہ سے وہ ہرگز اپنی جانے نہیں دیں گے جو بھی لڑکی اس جنگل میں نظر آئے گی ہم اس کا خون بہا دیں گے اور ہم اپنے آپ زندہ رہنے کی کوشش کریں گے اسی عرصے میں تمام بھائی تیر چلانا سیکھ گئے جنگل کی ساف سدری ہوا، مینت مشکت
اور ہرن اور چیڑوں کا دازہ گوشت نے ان کو مصبوط اور بہادر بنا دیا وہ بڑے سے بڑے وحشی جنور سے بھی نہیں ڈرتے تھے اور بڑی خوشی سے جنگل میں اپنے زندگی بسر کر رہے تھے ایک رات کو کچھ پریان سہر کرتی ہوئی اس جنگل کی طرف آ نکلیں انہوں نے یہاں لڑکوں کو دیکھا تو بڑا تاجوب کیا پریان جھوپڑی کے سامنے اتنی اور انہوں نے ان سے حال پوچھا لڑکوں نے انہیں سارا قصہ سنا دیا کہ کس
پریوں کو لڑکوں پر ترس آ گیا انہوں نے راجکماروں کی سہر کے لئے ایک بڑا خوبصورت باگ بنایا اور رنگ برنگ کے خوبصورت پول لگا دئیے پریوں نے راجکمار کے نام پر ایک گلاب کا پودہ بھی لگا دیا اور دعا دی کہ جب تک اس گلاب کے پول تازہ رہیں گے راجکمار بھی خوش و خرم رہیں گے صبح کو جب شہزادے سو کر اٹھے تو انہوں نے اپنے چھوپڑے کے سامنے یہ خوبصورت باگ دیکھا تو وہ خوش ہو گئ
رانی کے جب لڑکی پیدا ہوئی تو راجہ بہت خوش ہوا اور اس سے اس کو اور بھی خوشی ہوئی کہ لڑکی پہلے ہی محل چھوڑ کر چلے گئے۔ لڑکی کی پرویورش راجہ نے بہت اچھی طرح شروع کر دی۔ ہوتے ہوتے لڑکی بڑی ہو گئی۔ لڑکی بڑی خوبصورت اور سمجھ جار نکلی اور سب سے بڑی بات تو یہ تھی کہ وہ دل کی بڑی اچھی تھی۔ ایک دن لڑکی اپنے محل کے کمروں میں گھوم رہی تھی کہ ایک جگہ اس نے ب
کمیزے ہاتھ میں لے کر وہ اپنی ماں کے پاس دورتی ہوئی گئی اور پوچھنے لگی امی جان یہ کمیزے کس کی ہیں؟ ماہ بچاری سوال پر پوڑ پوڑ کر رونا لگی اور بھولی بیٹی نہ پوچھو لیکن لڑکی نہ مانی جب لڑکی نے زیادہ زد کی تو ماہ نے سوارا قصہ سنا دیا لڑکی باپ کے سنو کے فیصلے کو سمجھ نہ سکی اور اس نے ماہ کو تصلیح دی کہ تم روہ مات میں اپنے بھائیوں کو ڈھونڈ نکالوں گی
یہ کہہ کر شہزادی نے تمام کمیزیں اپنے ساتھ لیں اور جنگل کی طرف ربانہ ہو گئی۔ جب وہ جنگل میں پہنچی تو کیا دیکھتی ہے کہ جنگل کے بھیچوں بھیچ ایک چھوٹی سی چھوپڑی ہے۔ وہ چھوپڑی کے سامنے پہنچی، چھوپڑی کے قوار اندر سے بند تھے۔ اس نے کنڈی کھٹکٹائی۔ اس پر اندر سے خوبصورت نوجوان تیر لے کر نکلا اور چاہا کہ لڑکی کو مار ڈھالے۔ لیکن لڑکی نے کہا، تھیرو می
لڑکہ بولا تم کون ہو اور کس لئے آئی ہو؟ شہزادی بولی میں یہاں کے راجہ کی لڑکی ہوں۔ میرے پیدا ہونے سے پہلے میرے بارہ بھائی گھر کو چھوڑ کر جنگل کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔ کیونکہ میرے باپ نے یہ تیقیہ کیا تھا کہ جب میں پیدا ہوں گی تو وہ میرے بھائیوں کو قتل کر ڈھالے گا۔ کل جب میں راج مہل کے کملوں میں گھوم رہی تھی تو مجھے اپنے بھائیوں کی کمیزیں دکھائیں دیں۔ اب میں اپنے
پھر چاہے تم مجھے مار ڈالو بتاؤ اس جنگل میں تم نے ان کو کہیں دیکھا ہے لڑکا آنکھوں میں آنسو بھر کر بولا میں تمہارا چھوٹا بھائی ہوں باقی گیارہ بھائی شکار کھیلنے گئے ہیں وہ شام تک لوٹ آئیں گے یہ سنتے ہی لڑکی بھائی کے گلے لگ گئی دونوں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھر آئے اور بہت دیر ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے جب شام ہوئی تو چھوٹے بھائی نے
ہم سب بھائیوں نے یہ قسم کھائی تھی کہ جس لڑکی کو بھی ہم پہلی مردہ دیکھیں گے اس کو مار ڈالیں گے۔ اس لئے تمہاری جان خطرے میں ہے۔ وہ سب جب لوٹ کر یہاں آئیں گے اور تمہیں دیکھیں گے تو مار ڈالیں گے۔ بہن بولی کوئی ہرج نہیں۔ اگر میرے بھائی مجھ کو مار کر خوش ہونا چاہتے ہیں تو میں اپنی جان خوشی سے دینے کے لئے تیار ہوں۔ توٹا بھائی بولا نہیں نہیں ہم اپنی بہن کی جان لے کر کبھی خوش
یہ جو املی کا بڑا سا درکھ نظر آ رہا ہے اس کی خوہ میں چھپ جاؤ میں تمہیں کسی نہ کسی طرح بچا لوں گا۔ یہ سن کر چھوٹی بہن درکھ کی خوہ میں جا کر چھپ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد سب بھائی واپس آ گئے اور شکار کا گوشت بھوننے لگے۔ جب وہ کھانا وغیرہ کھا چکے تو باقی سب بھائیوں نے چھوٹے بھائی سے پوچھا کہو دن کیسے گزرا۔ چھوٹا بھائی بولا بڑے مزے میں آج دن بر
بڑے بھائی بولے بتاؤ ایسی کیا دولت ہاتھ آ گئی؟ چھوٹا بھائی بولا نہیں بتاؤں گا شاید تم لوگ مجھ سے چھین لوگے پہلے تو سب بھائی چھوٹے بھائی کیس بات کو مزاق سمجھتے رہے لیکن جب چھوٹا بھائی سج مچ خوچ نظر آنے لگا تو بڑے بھائیوں نے اسے اور قرید قرید کر پوچھنا شروع کیا آخر اس خوشی کی کیا وجہ ہے؟ چھوٹے بھائی نے کہا میں ایک شرط بر بتاؤں گا
اگر کوئی لڑکی دکھائی دی تو تم اس کی جان نہیں لو گے۔ سب بھائیوں نے قسم کھائی اور وعدہ کیا کہ ہم ہرگز نہیں ماریں گے۔ چھوٹا بھائی دوڑ کر گیا اور درک کی گوذ سے بھین کا ہاتھ پکڑ کر نکال لیا اور سب بھائیوں کو بتایا کہ یہ ہماری بھین ہے اور ہم سے ملنے آئی ہے۔ تمام بھائی اپنی بھین کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ایک ساتھ جنگل میں خوش خوش رہنے لگے۔ دن کو سب بھائی شکار کو جاتے۔
اور چھوٹی بہن چھوپڑے کی صفائی کرتی، تھانہ پکاتی اور اپنے بھائیوں کو ہر طرح کا آرام پہنچایا کرتی۔ ایک دن سب بھائی چھوپڑے کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ چھوٹی بہن اپنے تمام کاموں سے فارق ہو کر تہلنے نکلی۔ تہلتی تہلتی وہ اس کوپ سورت باگ میں پہنچی جس کو پریوں نے بنوائیا تھا۔ گلاب کے طرو طازہ پودے کھڑے تھے اور ان میں بڑے بڑے پھول لڑک رہے تھے۔
اس لئے وہ گلاب کے پوڑوں کے پاس گئی اور بارہ پھول توڑ لئے جو ہی اس نے پھول توڑے، بارہ کے بارہ بھائی قبوہ بن کر اڑ گئے اور وہ باگ بھی نظر سے غائب ہو گیا۔ لڑکی حیران پریشان کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ یہ کیا ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے دیکھا وہ ایک گنہ جنگل کے اندر کھڑی تھی اور بارہ قبوے درخت پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ مارے ڈرک کے کام گ
اور بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئی۔ تھوڑی دیر میں جب اس کو ہوش آیا تو اس نے دیکھا ایک پریس کے سرانے کھڑی ہے اور کہہ رہی تھی کہ شہزادی یہ تمہیں کیا کیا؟ جو پھول تم نے توڑے ہیں وہ تمہیں بھائی تھے۔ پھولوں کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی وہ کوا بنا کر اڑ گئے اور وہ اب ادھر سے ادھر اُڑھتے پھیریں گے۔ شہزادی بولی میری اچھی پری بتاؤ کیا میرے بھائی مجھ کو نہیں مل سکتے
اگر نہیں مل سکتے تو مجھ کو بھی قبوہ بنادھو میں بھی ان کے ساتھ اڑوں گی پری بولی صرف ایک صورت ہے وہ یہ کہ تم سات برس تک گنگی بن جاؤ اس دمیاں میں تمہیں نہ حسنا ہے اور نہ بولنا ہے اگر ایک سکن کے لیے بھی تم حسو یا بولوگی تو تمہارے بھائی تم کو کبھی نہ ملیں گے جب سات برس پورے ہو جائیں تو تم یہیں آچانا وہی باغ اور وہی گلاب کے پودیں ملیں گے
اور تمہارے بھائی تمہارے پاس ہوں گے۔ یہ کہ کر پری ہوا میں غائب ہو گئی اور شہزادی گاز پر قاموش پڑھی رہی۔ اسی دوران ایک شہزادہ جو جنگل میں شکار کھیلنے آیا ہوا تھا شکار کھیلتے کھیلتے ادھر آ پہچا اور کیا دیکھتا ہے کہ ایک خوبصور شہزادی گاز پر لیٹھی ہوئی تھی۔ شہزادہ قریب آیا اور شہزادی سے کہنے لگا تم ہمارے گھر چلو گی ہم تم کو اپنی رانی بنائیں گے۔ شہزادی نے کو
صرف سرحلا کر اپنی رضا مندی ظاہر کر دی۔ شہزادہ یہ سمجھا کہ شاید شہزادی شرما رہی ہے۔ اس لئے بغیر کچھ زیادہ بات چیت کیے، وہ شہزادی کو گھوڑے پر بٹھا کر گھر لے گیا اور اپنی ماں سے بولا میں اپنے لئے خوبصورت سری رانی لائیا ہوں۔ شہزادی کی ماں بھی شہزادی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی واقعی بڑی خوبصورت رانی ہے۔ دوسرے دن شادی کا
اور شہزادی کی شادی بڑی دھوم دھام سے کر دی گئی اور یہ دونوں ساتھ رہنے لگے۔ کچھ دنوں تک تو یہ لوگ سمجھتے رہے کہ شہزادی شرم کی وجہ سے نہیں بول رہی۔ لیکن جب شہزادی کو چھپ رہ دے کافی دن ہو گئے تو لوگوں نے شہزادی کو گنگی سمجھ لیا۔ ایک دن شہزادی کی ماں کہنے لگی کہ تم کس گنگی عورت کو اٹھا لائے ہو اگر صرف گنگی ہوتی تو نہ بولتی لیکن کبھی ہستی تو تو کہیں کی بھیک مانگنے والی
جب سے یہ آئی ہے نہو سرچھائی ہوئی ہے۔ شہزادی کی ماں اور اسی قسم کی باتیں کیا کرتی۔ کافی عرصہ گزر گیا۔ شہزادہ روز اسی قسم کی باتیں سنتا رہا۔ آخر ایک دن آجز ہو کر اس نے تے کیا کہ اس کی لای ہوئی شہزادی کو وہ قتل کر دے گا۔ اس نے قتل کا حکم دے دیا اور جلاد تلوار لے کر سامنے کھڑے ہو گئے۔ اب جلاد اپنی تلوار شہزادی کی گردن پر مارنے ہی والے تھے۔
کہ اس وقت سات برس کی مدد ختم ہو رہی تھی۔ شہزادی سارے تماشے پر کھل کھلا کر ہاس پڑی اور کہنے لگی اے راجہ ٹھہر جائیے میرے قتل کی وجہ بھی تو مجھے بتلا دیجئے مجھ بے گناہ کا خونہاپ کیوں کر رہے ہیں؟ یہ آواز سنتے ہی جلات کی طلوار فون رک گئی اور شہزادہ مارے خوشی کے اچھل پڑا۔ اس نے رانی کو گلے لگا کر کہا آخر اتنے دنوں تک تم چپ کیوں تھی اور یہ کیسا مزاق تھا؟
رانی نے اپنے بھائیوں کا سارا قصہ سنایا اور شہزادے سے کہا میرے ساتھ اسی جنگل میں چلئے جہاں سے آپ مجھ کو لائے تھے۔ شہزادہ اور رانی جنگل میں چلے گئے وہی جھوپڑا تھا وہی باگ اور وہی گلاب کے بارہ پودے جن میں خوبصورت پھول کھلے ہوئے تھے۔ بارہ کے بارہ بھائی باگ میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کھا رہے تھے۔ رانی نے اپنی کہانی اپنے بھائیوں کو سنائی اور بتلایا کہ اس نے شہزادے سے شاد
اس کے بعد رانی اپنے بھائیوں کے ساتھ شہزادے کو لے کر باپ کے گھر گئی اس کا باپ مر چکا تھا سب بھائیوں نے کہا چونکہ چھوٹے بھائی نے بہن کا بتا لگایا ہے اس لئے چھوٹے بھائی کو بادشاہ بنائیا چاہے چنانچہ سب کی مرزی سے چھوٹا بھائی بادشاہ بن گیا اور چھوٹی بہن شہزادے کے ساتھ واپس اپنے ملک چلے گئی
What's Your Reaction?