اندھیر نگری اور ایک چپراسی کا عجیب قصہ
اندھیر نگری اور ایک چپراسی کا عجیب قصہ
اسلام علیکم پیارے دوستو پیشِ فدمتھا قصہ اندھر نگری کا بزیر عرصہ گزرا کسی شہر میں گلاب نام کا ایک شخص رہتا تھا معمولی پڑا لکھا آدمی تھا کسی دفتر میں چپراسی کا کام کرتا تھا اس کی بی بی بڑی لڑا کا اور خراب قسم کی عورت تھی وہ ہمیشہ اپنے میہ سے کہا کرتی تھی کہ کہیں پردیس میں جا کر نوکری کرو یہاں تنفہ بہت کم ہے میں اس تھوڑی سی تنفہ میں وزارہ نہیں
نا ہمارے پاس کپڑے ہیں نا زیور ہے روخہ سوخہ کھانے کو ملتا ہے گلاب سنتا تھا اور خاموش ہو جائے کرتا تھا آخر روز روز کی لڑائی جھگڑوں سے تنگ آ کر اس نے بیوی سے کہا اچھا نیک بخت میں کل جاتا ہوں رات کو میرے ناشتے کیلئے روٹی پکا کر رکھنا سوے رے ہی نکل جاؤں گا بیوی تو خدا سے چاہتی تھی خوشی خوشی میہا کے ساتھ کے لئے پرانٹھے پکائے کیما بھنا
دو جوڑے کپڑے اڑھنے کے لیے کمل ایک دریمہ رسی سے باند کر راتھی کو رکھ دیا اور کہا جب تک بہت سا روپیاں نہ کمالو واپس نہ آنا غلاب کے باپ نے مرتے وقت تین سو روپیاں دیئے تھے وہ اس نے اپنی کمر میں باند لئے اور بہت سویرے روانہ ہو گیا ابھی وہ شہر کے باہر نہیں نکلا تھا کہ کیا دیکھتا ہے سڑک کے کنارے آدمیوں کا حجوم ہے کوئی کہکہ لگا رہا ہے کوئی لاہل پڑ رہا ہے کوئی کہ
ہمارا دماغ تھوڑی خراب ہے ٹھگ ہے ٹھگ غرز جتنے مون اتنی بات ہے یہ بھی مجمع میں جا کر کھڑا ہو گیا کہ شاید کوئی تماشا ہو رہا ہے وہاں اس کو ایک بزرگ سورت شخص نظر آئے وہ کھڑے کہہ رہے تھے کوئی ہے جو سو روپیے میں ایک بات خریدے یہ سوچنے لگا وہ کیسی بات ہوگی جس کے وہ سو روپیے مانگ رہے ہیں اس وقت اس کے پاس تین سو روپیے تھے اس نے اپنے دل میں کہا
وہ آگے بڑھا اور ان صاحب سے کہا چناب میرے پاس 300 روپی ہے میں 3 باتیں خریدنا چاہتا ہوں تمام مجمع اس کی بے بکوپی پر حس پڑا ان بزرگ نے اس کو علیدہ لے جا کر کہا میہ ایک بات تو یہ ہے کہ جب کبھی تم سفر پر جاؤ تو کسی کو اپنے ساتھ ضرور لے جاؤ دوسری بات یہ ہے کہ رات کو سونے سے پہلے اپنا بستر اپنے ہاتھ سے صاف کرلیا کرو تیسری بات یہ ہے کہ اپنے گھر کے دروازے بند رکھنا چاہیے
غلاب نے اپنے دل میں کہا یہ تو کوئی خاص باتیں نہ بتائیں بہرحال اس نے تینوں باتیں لکھ کر رکھ لیں اور تین سو روپیے دے کر اس نے پوچھا آپ مجھے کہاں مل سکتے ہیں اگر میں آپ کے پاس آنا چاہوں تو کس شہر میں جاؤں؟ انہوں نے جواب دیا میہ اندھیر نگری کا وزیر ہوں وہاں مل سکتا ہوں غلاب ان کو سلام کر کے آگے بڑا اس کے پاس دو تین روپیے تھے جو اس کی بی بی نے سفر خرچ کے لیے دیئے تھے
شہر سے باہر نکل کر اس نے دیکھا کہ تالاب کے کنارے بڑے بڑے میندک فدک رہے ہیں اس نے سوچا اور تو کوئی سفر میں میرے ساتھ ہے نہیں لاو ایک میندکی پپڑھ کر اپنے ساتھ لے جاؤں اور سوار روپیے کی پہلی بات آزماؤں غرز اس نے ایک بڑا میندک پپڑھ کر اپنے تھیلے میں ڈال لیا اور آگے کی راہ لی جب چلتے چلتے دوپہر ہو گئی ہوک پیاس سے پریشان ہو گیا تو جنگل میں ایک سائیدار درکت کے
چھاگل میں سے پانی نکال کر پیا اور اپنا بستر سرحانے رکھ کر سو گیا ابھی تھوڑی دیر ہی گزری ہوگی کہ اس کے کان میں عجیب قسم کی آوازیں آنی شروع ہوئی وہ گھبرا کر اٹھ بیٹا کیا دیکھتا ہے کہ ایک بہت بڑا کالا ناگ اس کے قریب مینڈک کو نگلنے کی کوشش کر رہا ہے اور مینڈک بڑی خوفناک آواز سے تررا رہا ہے یہ دیکھ کر اس کی جان نکل گئی گھبرا کر دور جا کر کھڑا ہو گیا جب ذرا ہواز در
پھر اپنا بستر اور تھیلہ اٹھانے گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ جہاں وہ سورہا تھا وہاں ساپ کا بہت بڑا بل تھا اگر مینڈک نہ ہوتا تو ساپ اس کو ڈس لیتا اس نے خدا کا شبہ دا کیا کہ سو روپیے تو بسول ہو گئے جان بچی لاکھ ہوا پائے اب دن ڈھلے لگا تھا کچھ دیر درخت کے نیچے بیٹھ کر آگے کی راہ لی چلتے چلتے شام ہو گئی وہ پریشان ہو رہا تھا کہ کہیں جنگل میں رات نہ ہو جائے اب تو مین
مگر خدا نے اس کی مشکل آسان کر دی دور سے ایک بستی نظر آئی مکانوں میں سے دھویں نکل رہا تھا بہت تیس تیس قدموں سے آگے بڑھا کہ رات ہونے سے پہلے وہاں پہنچ جائے یہ ایک خاصہ بڑا قصبہ تھا لوگ اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہو کر اپنے گھروں کو جا رہے تھے گلاب لوگوں سے پتہ پوچھ کر ایک سرائی میں آیا بی بٹیاری نے بڑی آو بھگت سے ٹھہر آیا میہ مسافر اس س
کھانا ناشتہ میں سب سے اچھا دیتی ہوں اور بھٹیاریاں تو ایک وقت دال ایک وقت پانی سا شوربہ دیتی ہیں میں کورما پلاؤ سبزیاں مٹھائیاں اور جو مسافر فرمایش کرتے ہیں پکا کر کھلاتی ہوں کوٹری میں ساف سترا بستل لگا ہے تم ہاتھ مو دھو کر میرے پاس بیٹھو میں ابھی کھانا لاتی ہوں گرز بھٹیاری کھانا تیار کرتی رہی اور اس سے باتیں بھی کرتی رہی ہک کا پہلے ہی تازہ کر کے اس کے پاس رکھ دیا تھا یہ بہت خو
ایسی بھی عورتیں ہوتی ہیں، ایک میری ہے، نہ کبھی میرے کھانے کا خیال کرتی ہے، نہ حکی کو پوچھتی ہے۔ رات کو بھٹیاری نے سفے دسترخان بچھا کر ساف ستری رقابیوں میں پلاؤ کورمہ اس کے آگے لاکر رکھ دیا۔ ایک تشتری میں کھیر بھی تھی، پانی کی سراحی اور کلائیدار کٹورہ اس کے پاس رکھ کر کہا میہ مصافر تم کھانا کھاؤ میں تمہاری کٹری میں چراغ جلا کر رکھ دوں اور بستر ٹھیک کر دوں۔
گُلَاب نے خیال کیا کہ میرے پاس دو چار روپے ہی ہے نا مالون یہ بھٹیاری کھانے اور کوٹری کا کرایہ کتنا مانگے وہ کھانا خوا کر اسی سوچ میں بیٹھا تھا بھٹیاری نے آکر کہا میہ مصافر کیا گھر یاد آ رہا ہے کیوں چپکے ہو اب جا کر آرام کرو گُلَاب نے جواب دیا نہیں بھٹیاری گھر یاد آتا تو پردیس کیوں آتا میں تو نوکری کی تلاش میں نکلا ہوں کوئی روزگار مل جائے خدا کرے بھٹیار
صبح میں اپنے دلال سے کہہ دوں گی وہ تمہیں اچھی سی نوکری دلوہ دے گا اس وقت تو جا کر آرام کرو تھکے ہو گے ہو گلاو اپنا تھیلہ لے کر کوٹری میں آیا پلنگ پر اجلی چادر کسی ہوئی تھی ایک طرف تپائی پر سراہی کٹورہ رکھا تھا اس نے کوٹری کے کواڑ کھول دیئے جاڑے کا موسم تھا سائن سائن ہوا چل گئی تھی یہ کھوٹی پر اپنا تھیلہ ٹانک کر پلنگ پر قدم رکھنا ہی چاہتا تھا کہ اس
اس نے بستر پر ہاتھ فیرا تو حیران رہ گیا بگیر بنے پلنگ پر ڈوریوں سے چادر کسی ہوئی تھی بڑی دیر تک وہ مارے ڈر کے کھاپتا رہا جب ذرا حواز درست ہوئے تو اس نے چراک جلا کر پلنگ کے نیچے جھاکا وہاں اسے ایک کوئی نظر آیا اسی وقت وہ سجدے میں گر پڑا اور خدا کا شکرا دا کیا اس نے سوچا 200 روپیہ وصول ہو گئے دو دفعہ میری جان بچ گئی بٹیاری اپنی کوٹری بند
یہ دبے قدموں باہر نکلا اور دوسرے مسافروں کو جا کر خبر کی دس بارہ آدمی اس کے ساتھ آئے چار پائی اٹھا کر دیکھا تو بہت گہرا کوئہ تھا اس میں سے بدبو آ رہی تھی سارے مسافروں نے سلا کی کہ اس وقت تو بھٹیاری کو کوٹری میں بند کر دو صبح پولیس میں اطلاع کر دیں گے غرز پوری سرائے میں شور مچ گیا صبح سووے رے سرائے میں لوگ جمہ ہونے شروع ہو گئے کوئے میں اترنے کے لیے کوئی تیار نہ ہوتا تھا
بڑی مشکل سے دو تین چماروں کو راضی کیا مشالہ ہاتھوں میں لے کر نیچے اترے دو تین سکتے ہوئے آدمیوں کو باہر نکالا جو شاید ایک دو دن پہلے ہی گرے تھے باقی سڑی گلی لاشوں اور ہڈیوں کی ڈھیر تھے جن کو چماروں نے نکالنے سے انکار کر دیا تھا بٹیاری وہ پولیس پکڑ لے گئی حاکم شہل نے غلاب کو انعام دیا دو تین دن یہ یہاں ٹھہرا اب اس کو اندھر نگری کی تلاش تھی
ان کی نصیت پر عمل کرنے سے دو مرتبہ اس کی جان بچ گئی تھی۔ ایک دن صبح سوبر وہ وہاں سے روانہ ہوا۔ لوگوں سے اندر نگری کا پتہ پوچھتے پوچھتے شام ہو گئی۔ وہ ایک شہر میں داخل ہوا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک عورت پوپ سونے چاندی کا زیبر پہنے، سڑک پر کھڑی ہے اور کہہ رہی ہے کہ میں بیچ سڑک پر بیٹھ کر پیشاب کر دو تو کوئی مجھے کیا دے گا؟ غلاب کو اس کی اس بےہودہ حرکت پر حسی آ
یہ کیا کہہ رہی ہے؟ اس کو شرم نہیں آتی؟ اس کو ہستا دیکھ کر وہ عورت سرک پر بیٹھ کر پیشاپ کرنے لگی سرک پر لوگ آ جا رہے تھے کسی نے پروا نہیں کی اس کو بہت تاجو بھگا کہ یہاں کی لوگ عجیب بتتمیز اور بتحذیب ہیں کوئی اس کو منہ نہیں کرتا وہ یہیں کھڑا سوچ رہا تھا کہ اس عورت نے آکر اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا لا کیا دیتا ہے میں سو روپیے سے کم نہیں لوں گی غلاب نے کہا کیا ب
تیری بیہودہ بات پر مجھے ہسی آ گئی تھی مگر اس عورت نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا تُو ہسا کیوں تھا میں بغیر لئے چھوڑوں گی نہیں اس نے گالیاں دینی اور شور مچانا شروع کر دیا بہت سے لوگ جمہ ہوئے سب نے گلابھی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور اسے پکڑ لیا کہ سور روپیے اس عورت کو دو تم ہسے کیوں تھے یہ عجنبی آدمی حیران پریشان کھڑا تھا کہ کیا مسئیبت آ گئی اسی وقت دو
مجمہ دیکھ کر کوچوان نے گاری روگ دی گلاب نے دیکھا وہ ہی شخص گاری میں بیٹھے ہوئے ہیں جن سے اس نے 300 روپیے کی باتیں خریدی تھی اس کی جان میں جان آئی گاری میں سے وہ صاحب خود اتر کر آئے ان کو دیکھتے ہی لوگ ادھر ادھر ہو گئے انہوں نے ڈاٹ کر پوچھا یہ کیا جھگڑا ہے گلاب نے آگے بڑھ کر تمام باکیہ کہہ سنایا اس عورت نے کہا میں اس کو نہیں چھوڑوں گی یہ میرے اوپر حسا کیوں
وزیر صاحب نے کہا اچھا ٹھے رو ہم تمہارا جھگڑا ابھی ختم کر دیتے ہیں انہوں نے پیمائش کے فیتے مانگوائے اور اس عورت سے کہا اگر بیچ سڑک پر تم نے یہ حرکت کی ہے تو تم کو سو روٹیے دلوائے جائیں گے اور اگر بیچ نہ نکلی تو تمہیں اپنا زیبر اس شخص کو دینا پڑے گا انہوں نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ جہاں سے سڑک شروع ہوتی ہے اور جہاں ختم ہوتی ہے اس کو ناپ کر بتاؤ
گرز دونوں طرف سے سڑک ناپی گئی، ایک طرف سے کم اور ایک طرف سے زیادہ نکلی وزیر صاحب نے کہا، اس عورت کا زیبر اتار کر عجنبی کو دے دو سپائیوں نے اس کا زیبر اتار کر گلاب کو دے دیا وہ عورت روتی پیٹھتی اپنے گھر کو چلی گئی انہوں نے گلاب سے کہا، تم یہاں کہاں ہاں فسے، یہ اندر نگری ہے، چلو میرے سانک وہ اس کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے گئے اور کہا، خبر دار، اب کہیں باہر نہ نکلنا
اس وقت تو میں اتفاق سے وہاں پہنچ گیا ورنہ یہاں آکے لوگ تمہاری بہت بری گت بناتے ایک ہفتہ تک گلاب گھر میں بند رہا اس کا جوٹا بالکل ٹوٹ گیا تھا وہ اپنے جوٹا ٹکوانے باہر نکلا تھوڑی دور پر موچی بیٹھا تھا گلاب نے اس کو اپنا جوٹا دیا اس نے اجرت پوچھی اس نے کہا بھائی گھبراتے کیوں ہو کچھ دے دیں گے جوٹا بنانے کے بعد اس نے چار آنے کے پیسے اس کو د
پھر آٹھاں نے دیے وہ بھی نہیں لیے ایک روپیاں دیا وہ بھی باپس کر دیا گلاب نے پوچھا بھائی آخر کیا لو گے اس نے کہا تم نے کچھ دینے کو کہا تھا میں تو کچھ لوں گا بات بڑھ گئی لوگ جمع ہو گئے سب نے گلابی کو جھوٹا بنایا اس نے پانچ روپیاں تک دینے کو کہے مگر موچی نے نہیں لیے وہ تو کچھ مانگے جا رہا تھا گرد اس ٹو ٹو میمے میں ایک گھنٹہ گزر گیا
وزیر صاحب اپنی عدالت سے واپس آ رہے تھے سڑک پر مجمہ دیکھ کر گاڑی رکھوائی اور جھگڑے کی وجہ پوچھی گلاب نے بتایا کہ جناب یہ قصہ ہے ذرا جوٹر ٹکوائے تھا اب میں پانچ روپیے دینے کو تیار ہوں مگر یہ نہیں لیتا موچی نے ہاتھ بان کر کہا حضور اس نے اپنی زبان سے کہا تھا کہ کچھ دے دوں گا میں اس سے کچھ مانگ رہا ہوں مجھے روپیے پیسے کی ضرورت نہیں وزیر صاحب نے
وہ سلام کر کے خوشی خوشی اپنے گھر چلا گیا تماشائی بھی چلے گئے وزیر صاحب نے غلاب سے کہا تم کو ہم نے منع کر دیا تھا مگر تم پھر باہر نکل آئے اس نے شرمندہ ہو کر جواب دیا جناب سفر میں پیدل چلنے سے جوٹت پوٹ گیا تھا اس کو سلوانے آیا تھا اب کہیں نہیں جاؤں گا دوسرے دن موچی اور تماشائی عدالت میں پہنچے غلاب بھی جا کر خاموش کھڑا ہو گیا کچھ دیر بعد وزیر صاحب کی
اس نے پیتل کی ایک نٹیا لاکر رکھی اس کے مو پر کپڑا بندہ ہوا تھا موچی کو آواز دی گئی وہ حاضب حضور کہ کر جلدی سے آگے بڑا وزیر صاحب نے کہا کپڑا کھول کر اپنی چیز نکار لو موچی نے خوشی خوشی کپڑا کھول کر لٹیا میں ہاڈ ڈالا اور گھبرا کر چیکھا حضور اس میں تو کچھ ہے وزیر صاحب نے کہا تم کو کچھ مل گیا لٹیا اٹھا کر لے جاؤ اور اس پردیسی آدمی
اس وقت تو ہم نے صرف سو روپیے جرمانہ کیا ہے اگر آیندھا تمہاری کوئی شکائے سنی تو تمہیں جیل بھیجو بات دیں گے چپراصی نے لٹھیا کے مو پر کفڑہ بان کر اس کے ہاتھ میں دے دیا وہ تکلیب سے رو رہا تھا عدالت سے باہر جا کر اس نے لٹھیا باہر فیگ دی اس میں مدھو مکھیوں کا چھتہ تھا گرز گلاب کو گھر کے اندر بیٹھے بیٹھے دو مہینے گزر گئی ہر طرح کا آرام تھا اچ
رات کو وزیر صاحب اس کو اندر نگری کے حالات سناتے تھے وہ تنہا یہاں رہتے تھے گر کے لوگ دوسری جگہ تھے یہاں کا راجہ رات دن عیش کرتا تھا اس کو اپنی ریاست سے کچھ مطلب نہیں تھا سیاہ اور سفیت کے مالک وزیر صاحب ہی تھے ایک دن گلاب کا دل بہت گھبر آیا وزیر صاحب کا چیری جا چکے تھے وہ دروازے پر جا کر کھڑا ہو گیا سڑک پر لوگ آ جا رہے تھے یہ خاموش دیکھتا رہا کچ
گلاب کو دیکھ کر اس نے مو چڑایا اور عجیب عجیب شکلیں پنانے لگا ناچنے کوننے لگا اس کو اس آدمی کی ان حرکتوں پر بڑی حسی آئی وہ ایک دم سنجیدہ ہو گیا اور اس کے قریب آکر اس کا ہاتھ پکڑ دیا اور کہا تم میرے اوپر حسے کیوں میری آنکھ کا مزاق کیوں اڑایا گلاب نے کہا بھائی میں تمہاری آنکھ پر نہیں حسا تھا بلکہ تم مو چڑا رہے تھے زبان نکال رہے تھے اچھل کود رہے تھے
میری آنکھ پر حسی تھی اب میں تمہاری آنکھ لوں گا جب تک تم اپنی ایک آنکھ نہیں دو گے میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں اس کانے آدمی نے لڑنا جھگڑنا شروع کر دیا لوگیں خٹے ہو گئے سب نے گلاب کو ہی گھیر لیا اور کانے کی طرفداری کرنے لگے آخر جھگڑا یہاں تک بڑا کہ پولیس دونوں کو پکڑ کر وزیر صاحب کے پاس لے گئی سارا قصہ سنائیا کانے آدمی نے کہا حضور یہ میرے او
کانی نے جواب دیا میں اس کی آنکھ نکلوانا چاہتا ہوں وزیر صاحب نے کہا اچھا کل اس مقدمے کا فیصلہ کریں گے تم لوگ کل صبح ہماری عدالت میں حاضر ہونا یہ سن کر وہ ہستا خوش ہوتا اپنے گھر گیا وزیر صاحب نے واپس آکر غلاب سے کہا میں نے تم کو کئی مرتبہ سمجھایا کہ یہ اندھیر نگری ہے تم باہر نہ نکلا کرو مگر تم نے میری نصیعت پر عمل نہیں کیا اب کل کے مقدمے کے بعد تم اپنے گھر جاؤ یہ
صرف میں ہوں جو ان لوگوں کو ٹھیک کرتا ہوں یہاں بہت سے حاکم آئے اور ان لوگوں کی حرکتوں سے گھبرا کر چلے گئے مگر میں نے اپنے دل میں تیقر لیا ہے کہ جب تک شہر کے لوگوں کو ٹھیک نہیں کر دوں گا اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا راجہ نے مجھے پورا اختیار دیا ہے گرل دوسرے دن صبح کو وہ کانہ آدمی اور اس کے ساتھ تمہ شاییوں کا حجوم عدالت میں جمع ہوئے گلاب بھی ملزم کی حیثیت سے جا کر کھڑا
اس کو ڈر تھا کہ کہیں میری آنکھ نہ نکال لی جائے وہ کانہ آدمی اس کو دیکھ دیکھ کر ہس رہا تھا اس کے ساتھی فکرہ بازی کر رہے تھے دس وجہ وزیر صاحب تشریف لائے چپ راسی نے وزن کرنے کا کانٹل لاکھ دیا اور کہا بلاو جراہ کو اسی وقت جراہ چمکتے ہوئے تیز نشتل لے کر آ گیا گلاب کی مارے ڈر کے جان نکل گئی کانہ آدمی اور اس کے ساتھی خوش ہو رہے تھے وزیر صاحب نے اس سے پھر پوچھا
اس نے کہا تھا میں اس آدمی کی آنکھ چاہتا ہوں وزیر صاحب نے کہا اچھا بیٹھو اور سنو تمہاری آنکھ زرہ چھوٹی ہے ملظم گلاب کی آنکھ بڑی ہے ہم انصاف کرتے ہیں پہلے تمہاری آنکھ نکال کر تو لیں گے پھر ملظم کی آنکھ نکال کر اس کی برابر بزن کر کے تمہیں دے دیں گے انہوں نے چپراسی سے کہا بلاؤ جرح کو اس آدمی کو پکڑو تاکہ اس کی آنکھ نکال لی جائے کانہ آدمی ہاتھ
مجھے آنکھ نہیں چاہیے مجھے خدا کے باستے چھوڑ دیں مصدر خطہ ہو گئی جتنا جرمانہ حضور کریں گے میں دینے کو تیار ہوں مگر میری آنکھ نہ نکلوائے وزیر صاحب نے چپراسی سے کہا ہم دو سو روپیے جرمانہ کرتے ہیں تم اس کے ساتھ جاکر روپیہ لے آؤ اور گلاب کو دے دو قرط سو روپیہ گلاب کو پہلے موچی سے ملے تھے دو سو روپیہ اب مل گئے اور اس وورت کا سونے چ
وہ گھر میں بیٹھے بیٹھے تنگ آ گیا تھا دوسری بات یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کو دکھانا چاہتا تھا کہ دیکھ کتنا روپیا کما کر لایا ہوں اور زیور بھی بنوالیا ہے وہ سمجھ رہا تھا کہ بیوی زیور کو دیکھ کر بہت خوش ہوگی لڑائی جھگڑا اور روز کی تانیں ختم ہو جائیں گے اورتوں کو تو روپیا اور زیور سے محبت ہوتی ہے غرز اس نے بزیر صاحب سے اجازت مانگی وہ خود یہی چاہتے تھے کہ اپنے گھر چ
انہوں نے بہت خوشی اجازت دے دی اور 300 روپیے بھی واپس کر دئیے جو 3 باتے خریدنے پر لئے تھے دوسرے دن وہ ان سے روکست ہو کر روانہ ہو گیا چلتے چلتے شام ہو گئی وہ اسی شہر میں پہنچ گیا جہاں بھٹیاری کا قصہ ہوا تھا اب وہ کسی سرائے میں نہیں ٹھہرا، ڈرہ ہوا تھا ایک نان بائی کی دکان پر بیٹھے بیٹھے رات گزار دی کیونکہ اس کے پاس روپیہ بھی تھا اور زیبر بھی یہ سب چیزیں کمر سے ب
صبح اٹھ کر دکان پر کھانا کھایا اور آگے کی راہ لی جب اپنا شہر قریب آ گیا تو وہ ایک گاؤں میں سستانے کیلئے ٹھہر گیا گھوک بھی لگ رہی تھی کھانا خرید کر کھایا کوئے پر جا کر پانی پیا اور وہیں کھانس پر اپنا بستر سرحانے رکھ کر لیٹ گیا ساری رات کا جاگہ ہوا تھا ایسا سویا کہ شام کو آنکھ کھولی گھبرا کر کھڑا ہو گیا پہلے اپنی کمر ٹٹولی جب اتمینان ہو گ
اب وہ تیز تیز قدموں سے جا رہا تھا مگر پہنچتے پہنچتے رات ہو گئی دروازہ اندر سے بند تھا اس نے آواز دی مگر کوئی جواب نہیں ملا تو سمجھا بی بی گھر میں نہیں ہے مگر دروازے کی درازوں میں سے روشنی نظر آ رہی تھی اس نے جھاک کر دیکھا گرمی کا موسم تھا انگنائی میں دو پلنگ بچے ہوئے تھے ایک پر اس کی بی بی سو رہی تھی دوسرے پر کوئی اور سو رہا تھا ہک کا پاس رکھا تھا
زور زور سے پیٹھنا شروع کیا اس کی بی بی گھبرا کر اٹھ بیٹھی پوچھا کون ہے؟ اس نے نام بتا کر کہا جلدی دروازہ کھول ورنہ میں توڑ دوں گا اس کی بی بی نے جلدی سے گھر کا دوسرا دروازہ کھول کر اس آدمی کو نکال دیا اور اندر سے کنڈی بند کر کے انگنائی والا دروازہ کھول دیا گلاب نے ڈاٹ کر پوچھا یہ پلنگ کس کا بچھا ہے؟ اس نے جواب دیا تمہارے لئے روز پلنگ بچھا دیا کرت
ایک مہینہ بھی نہیں ہوا اور تم واپس آ گئے اس طرح کیا خواک کمہ ہوگے؟ گلاب نے پاؤں سے جوٹا اتار کر کہا سچ سچ بتا یہ حکا کس کا رکھا ہے؟ وہ بھی چلائی اے مردود، تو اپنے حوش میں رہ اکیلے گھر میں رات کو میں پڑی حکا گلگڑایا کرتی ہوں تاکہ لوگ سمجھے کوئی مرد بھی گھر میں ہے گلاب بسے سے بے کابو ہورہا تھا وہ گھر کا کونہ کونہ تلاش کر رہا تھا اور کہتا جاتا تھا
میں نے اپنی آنکھوں سے آدمی کو پلنک پر سوتے دیکھا تھا اس کو اس وقت خیال نہیں رہا تھا کہ بیٹھاک کا ایک دروازہ باہر کھلتا ہے جب وہاں آیا تو اپنا سر پکل کر بیٹھ گیا اس کو خیال آیا سو روپیے کی تیسری بات بالکل ٹھیک نکلی گرز تمام دن وہ بیوی سے لڑتا رہا صبح محلے والوں کو اس کے آنے کی خبر ہوئی سب ملنے آئے اور اس کی بیوی کی حرکتیں سنائی
اس نے جو کچھ رات کو دیکھا تھا بیان کیا اور اسی دن اپنی بیوی کو طلیق دے کر اس کے مائے کے بھیج دیا۔ مولی والوں کو معلوم ہو گیا تھا کہ یہ کافی روپیا کمہ کر لیا ہے۔ سب کی کوشش تھی کہ اس کی شادی کروادیں۔ مگر اب وہ شادی کے نام سے ڈرتا تھا۔ وہ کہتا تھا، اب مجھے کسی عورت پر اعتبار نہیں رہا۔
What's Your Reaction?