بندر شہزادہ اور بادشاہ کی بیٹی
بندر شہزادہ اور بادشاہ کی بیٹی
اسلام علیکم دوستو بہت پرانے زمانے کی بات ہے کسی چہر میں ایک بادشاہ کی حکومت تھی بادشاہ بہت انیک اور رحم دل تھا نہ کسی پر ظلم کرتا اور نہ ظلم ہونے دیتا اس نے سزائیں بھی ہلکی کروارک کی تھی لیکن پھر بھی اس کی سلطنت میں امن و امان تھا لوگ اماندار تھے خوشحالی تھی اس لئے جرائیں بھی کم ہوتے تھے
لوگ اتنے خدا ترس تھے کہ بادشاہ کی جان و مال کو دعا دیتے تھے۔ بادشاہ کی رحمدلی کا یہ عالم تھا کہ انسان تو انسان وہ جانوروں پر بھی ظلم نہیں ہونے دیتے تھے۔ ایک دفعہ کی بات ہے، برسات کا سوہانہ موسم تھا۔ بادشاہ اپنے وزیروں اور مسائبوں کے ساتھ سیار کو نکلا۔ جنگل کے قریب ڈھیرے ڈالے گئے، بادشاہ کا خیمہ نصب کیا گیا۔ کیل، تماشے اور تفریات ہونے لگیں، جنگل میں منگل کا س
اچھے اچھے بگوان بن رہے تھے کانے کا وقت ہوا دستر خان بچھا لیا تو بادشاہ نے دیکھا کہ ایک بڑے درخت پر ایک بہت بڑا بندر بیٹھا سب کچھ دیکھ رہا تھا اس میں بندروں والی کوئی حرکت نہیں کی نہ کانے کی کوئی چیز لے کر بھاگا اور نہ ہی کسی کو پریشان کیا بادشاہ نے اپنے نوکروں سے کہا تھوڑا کھانا اور فلس بندر کے سامنے بھی ڈال دو نوکروں نے کچھ فلو روٹی بند
اور ایک ٹھکری لے کر اس پر کچھ لکھنے لگا پھر اس نے وہ ٹھکری بادشاہ کو دے دی بادشاہ کود بھی یہ تماشہ دیکھ رہا تھا اور ٹھکری پر لکھا تھا میں ایسے کھانے نہیں کھاؤں گا جیسا دسترخان بادشاہ سلامت کیلئے لگا ہے میرے لئے بھی ایسا ہی دسترخان لگایا جائے اور جیسے برتنوں میں بادشاہ کو کھانا پیش کیا جا رہا ہے ایسے ہی برتنوں میں مجھے بھی کھانا پیش کیا ج
کہ ایک بندر نہ صرف پڑھ سکتا ہے بلکہ اس کا اتنا اچھا دماغ بھی ہے۔ بادشاہ کو بھی دلچسپی پیدا ہو گئی۔ اس نے نوکروں کو حکم دیا کہ اس بندر کے لیے بھی ہمارے جیسا دستر خان لگاؤ اور وہی کھانہ پیش کرو جو ہمیں پیش کیا گیا ہے۔ بادشاہ کی اکم کی تعمیل ہوئی۔ جب دستر خان لگ گیا تو بندر پتھر سے اُتر کر نیچے آیا۔ نوکروں نے اس کے ہاتھ دھلوائے پھر بڑی تمیز سے اس نے دست
اس نے ہاتھ دھوئے اور پہلے پتھر پر جا گیا بادشاہ بڑی حیرت اور دلچسپی سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا تھوڑی دیر بعد آسمان پر کالے بادل چھا گئے نوکروں نے جلدی جلدی سامان سمیٹا بادشاہ نے کہا ایک ٹار کا ٹکڑا بندر کے پاس بھی رکھ دو کہیں یہ بھیگ نہ جائے کسی کا پالتو بندر لگتا ہے نوکروں نے ٹار لے کر اس کے پاس پہنچے تو اس نے جلدی ٹھکری پر کچھ لکھ کر ن
نوکر بادشاہ کے پاس گیا ٹکری پر یہ لکھا تھا کہ جیسا خیمہ بادشاہ کے لئے لگایا گیا ہے ایسا ہی میرے لئے بھی لگاؤ ویسے ہی ساز و سامان تیار کرو تب میں آوں گا بادشاہ باقایدہ دلچسپی لے رہا تھا بادشاہ کے حکم سے فوراً شاہی خیمہ تیار کیا گیا اور پلنگ بستر لگا لیا گیا اتنے میں بارے شروع ہو گئی بندر بڑی نفاس سے اٹھ کر خیمے میں آیا بادشاہ
بندر ہر بعد میں بادشا کی برابری کی فرمایش کرتا رہا جس دن بادشا واپس مہل میں جانے کیلئے روانہ ہونے والا تھا تو اس نے نوکروں سے کہا اس بندر سے پوچھ کر آو ہمارے ساتھ چلے گا بندر نے پھر ٹھگری پر لکھا کہ جیسا ہاتھی بادشا کی سواری کیلئے ہے ویسا ہی ہاتھی میرے لئے بھی تیار کراؤ پھر میں جانے کیلئے تیار ہوں گا بادشا نے دل ہی دل میں سوچا یہ اچھی تفریح ہے
ایسا شایستہ اور پڑا لکھا بندر کہیں نہیں ملے گا۔ بادشاہ نے احکم دیا کہ ہماری سواری جیسی سواری اور تیار کرو اور اس بندر کو بھی ہمارے ساتھ لے چلو۔ بندر بڑی شان سے مہل میں داخل ہوا اس کا آتھی بادشاہ کے ہاتھی کے ساتھ سا چل رہا تھا۔ شہر کے لوگ بڑی حیرہ سے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ مہل میں پہنچ کر بادشاہ نے کہا باہر جو نوکروں کے مکان ہیں اس میں سے ایک مکان میں بندر کو چھوڑ د
بندر کو اب کاغس کلم بھی دے دیا گیا تھا اس نے کاغس پر لکھا میں یہاں نہیں رہوں گا جیسا محل بادشاہ کا ہے ایسا ہی محل میرے لی بھی تیار کروائے جائے اور ویسی ہساری آیسائشیں بھی ہوں تو پھر میں رہوں گا ورنہ میں واپس چلا جاؤں گا بادشاہ کا ایک محل اور بھی تھا جہاں وہ گرمی کے موسمے رہا کرتا تھا اس محل کو بادشاہ نے بندر کے رہنے کے لیے تیار کروائے دیا اور بند
کہ انہیں ایک بندر کی خدمت کرنا پڑتی ہے لیکن بادشاہ کا حکم تھا بادشاہ کی ملکہ کو بھی بندر سے بڑی چڑھ ہو گئی وہ برابر بادشاہ سے کہتی رہتی اس بندر کو واپس جنگل میں چھوڑا ہو کوئی بدرو لگتی ہے لیکن بادشاہ اس بات پر راضی نہیں تھا ادھر بندر نے دربار میں بھی بھیٹھنا شروع کر دیا سارے مقدمیں بڑے دھیان سے سنتا اور اگر بادشاہ کوئی غلط فیصلہ دینے والا ہوتا تو
اور صحیح فیصلہ لکھ کر ان کے سامنے رکھ دیتا۔ شروع میں بادشاہ کو بڑا غصہ آیا لیکن پھر اس نے محسوس کیا کہ بندر کی وجہ سے وہ بہت سی گلکیں سے بج گیا ہے بے گنوہ سزا سے بھی محفوظ رہے اور گناہگاروں کو سزا بھی نہیں ملی اور بھی کئی ایسے فیصلے کرنے میں بندر نے بہت مدد کی جو بادشاہ اور کی سلکنت کے لیے فائدہ من تھے دیرے دیرے بادشاہ اپنے سبھی فیصلے اور اکامہ حادر کرنے سے پہل
درباری بھی اس اکلمن اور پڑھے لکھے بندر کے عادی ہو چکے تھے لیکن ملکہ کی دشمنی بندر سے کم نہ ہوئی وہ لگاتار بادشاہ سے کہتی رہتی اس بندر کو کہیں اٹھو آ کر فکوادو یا جنگل میں چھوڑاو نہیں تو ایک دن یہ آپ کی ساری سلطنت پر قبضہ کر لے گا ہمارے ہاں کوئی بیٹا بھی نہیں ہے جو ہماری مدد کر سکے یہ بندر آپ کو ہٹا کر خود راج گدی پر بیٹھ جائے گا بادشاہ بیگم کو سمجھاتا
آپ دیکھ رہی ہیں یہ کوئی معاملی بندر نہیں ہے اب تک وہ ہمارے لیے بہت فائدہ منثابت ہوا ہے ہماری سلطنت میں اس کی وجہ سے بہت بہتری آئی ہے پھر ہمیں اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے وہ ہماری حفاظت کرے گا لیکن بیگم کو چین نہیں آیا اس نے بندر کو مروانے کی سازش کی بندر کے لیے جو کھانا بھیجا جا رہا تھا اس میں ملکہ نے زہر ملوہ دیا اور اس دن بندر نے کھانا کھایا ہی نہیں
اور بادشاہ کو ایک برچے پر لکھ کر دیا مجھے مرمانے کی کوشش آپ کو اور آپ کے پورے خاندان کو بہت مہنگی پڑے گی بادشاہ کو جب اس سازش کا علم ہوا اور زہر کے بارے میں پتا چلا تو اسے بہت غصہ آیا نوکروں کو برا بلا کہا اور ڈھٹا اور بیگم کو سمجھایا کہ آیندہ ایسی ہماکن مد کرنا بیگم دل ہی دل میں جنھ بھلن رہی تھی بادشاہ کی ایک ہی خوبصورت بیٹی تھی
بادشاہ اپنی بیٹی کو جان سے بھی زیادہ چاہتا تھا اور اسے بہت عزیز رکھتا تھا بندر کے چرچے اس نے بھی سنے تھے اور اسے بھی بندر دیکھنے کا شوق پیدا ہوا ایک دن بندر تربار سے نکل کر اپنے محل جا رہا تھا شہزادی اپنی سہلیوں کے ساتھ کھڑی ہو کر اسے دیکھنے لگی بندر نے جب شہزادی کو دیکھا تو رک گیا اور اسے گھرنے لگا شہزادی بندر سے ڈر کر محل میں بھاگ گئی اور اس دن سے یہ ہ
کہ جب شہزادی بن سور کر آئنا دیکھتی تو پیچھے سے بندر کا چیرہ نظر آجاتا بندر نہ جانے کیسے اس کے کمبرے میں گھسا رہتا شہزادی کو ڈر کے مارے بخار چڑ جاتا پھر کئی دن بندر اس کے کمبرے میں نہیں آیا جب شہزادی ٹھیک ہو گئی تو بندر نے پھر آنا جانا شروع کر دیا اس نے پرچے پر لکھ کر شہزادی کے ہاتھ میں تھمائی اور پرچے پر لکھا تھا کہ میں تم سے شادی کروں گا یقین کرو میں بھی بہت خ
شہزادی جانتی تھی کہ یہ تحضیم مند بندر ہے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا لیکن اس کا ڈھرنا بھی قدرتی تھا دھیرے دھیرے شہزادی کا ڈھر ختم ہوا اسے اب بندر سے ہمدردی ہو گئی وہ سوچتی اتنا محظوظ سمجھ دار اور پڑا لکھا ہے کہ میرے والد کو اس نے کئی خطروں سے بچا لیا ہے ہم پر اس کے بڑے عیسان ہیں اگر اللہ نے اسے بندر کی صورت دی ہے تو اس کا کیا کسول اب شہزادی بند
وہ تھوڑی دیر اس کمرے میں رکھتا پھر اسے دیکھتا اور چلا جاتا۔ ہوتے ہوتے یہ بات ملکہ کے کانوں تک جا پہنچی۔ اس نے تو سارا محل سر پر اٹھا لیا۔ بندر کو خوب برا بھلا کہا، گالیاں دی اور بادشاہ کے پاس جا کر خوب رونا دھونا کیا اور کہنے لگی تو ہد ہو گئی ہے۔ اب آپ کا وہ چہیتہ بندر آپ کی لادلی بیٹی کے پیچھے ہاتھ دو کر پڑ گیا ہے۔ یا تو اسے نکال دو، نہیں تو میں زہر کھال
پادشاں نے شہزادی کو گلا کر پوچھا کیا بندر تمہیں پریشان کرتا ہے؟ شہزادی نے سچ سچ ساری بات پادشاں کو بتا دی اور کہا ابا جان پہلے تو مجھے واقعی اسے بہت ڈر لگتا تھا لیکن اب نہیں لگتا مجھے اس سے ہمدردی ہوتی ہے پتہ نہیں کون ہے اس پر کیا مسئبت پڑی ہے پادشاں کو تو اتمانہاں ہو گیا کہ شہزادی کی جان کو کوئی خطرہ نہیں
لیکن پھر بھی بادشاہ کو یہ بات پسند نہ آئی کہ بندر اس طرح شہزادی کے کمرے میں آتا جائے۔ بادشاہ نے بندر سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگلے دن بادشاہ بندر کے محل میں پہنچا۔ بندر باگ میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ بادشاہ نے اس سے کہا، دیکھو میں نہیں جانتا تم کون ہو اور کیا ہو، لیکن میں نے آج تک تمہاری ہر بات مانی ہے، تمہیں اپنے برابر کا درجہ دیا ہے، جو شاید کوئی دوسرا بادشاہ اپ
لیکن اب تم نے میری بیٹی کو پریشان کرنا شروع کر دیا یہ مجھے گوارہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی سخت قدم اٹھاؤں تم اس عرقت سے باز آجاؤں۔ بندر جت سے مہل میں سے کاغز اور کلم لے آیا اور لکھنے لگا اور اس نے لکھ کر بادشاہ کو دے دیا۔ اس میں لکھا تھا کہ میں آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسے ہمیشہ خوش رکھوں گا۔ اسے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ بادشاہ تو حق کا بکا رہ
اپنی پھول سی شہزادی کی شادی اس بندر سے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا اس نے کہہ دیا ایسا میری زندگی میں تو کبھی نہیں ہو سکتا بندر نے باشا کی کمر سے تلوار نکال کر تان لی اور دوسرے ہاتھ سے لکھا اگر آپ کی زندگی میں یہ ممکن نہیں تو مرنے کیلئے تیار ہو جائیں میں آپ کو مار کر آپ کی بیٹی سے شادی کرلوں گا آپ میرے محسن ہیں آپ نے مجھ پر عیسان کیا آپ نے مجھے محل میں رکھا
میں آپ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنا نہیں چاہتا۔ پادشاہ کو اپنی موت سامنے نظر آئی تو وہ بھولا میں سوچ کر جواب دوں گا۔ بندر نے لکھا جو کچھ بھی ہے وہ جواب ہاں میں ہونا چاہیے۔ پادشاہ بچارہ مہل میں واپس آ گیا اور بڑا سخت پریشان تھا ایک طرف اپنی بیٹی تھی اور ایک طرف اپنی زندگی بچارہ کیا کرتا اور کیا نہ کرتا ساری رات اس نے ٹہلتے ہوئے گزار دی پر بیگم
کہ وہ مہل سر پر اٹھالے گی اور کہیں گی کہ تم اس سے لا ہی کیوں تھے؟ سبا ہوئی تو بادشاہ فیصلہ کر چکا تھا وہ کبھی اپنی بیٹی کے شادی اس بندر سے نہیں کرے گا اپنی بیٹی کو بندر سے بیانے کے بجائے وہ اپنی جان دے دے گا کچھ نصیاتیں اور وصیاتیں کرنے کے لیے وہ شہزادی کے پاس گیا اور اسے سمجھانے لگا اگر کل اسے کچھ ہو جائے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ اپنی ماہ کو اسے کیسے سمباننا چاہیے اور س
کون کون لوگ وفادار ہیں اور کون لوگ اس کی مدد کر سکتے ہیں؟ شہزادی نے آنکھوں میں آسو بھر کر کہا ابہ جان آج آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ اللہ آپ کا سائیہ میرے سر پر ہمیشہ سلامت رکھے انشاء اللہ آپ سور برس جائیں گے اور حکومت کریں گے بادشاہ نے شہزادی کو سمجھایا اور بولا بیٹی وہ بندن میری جان کے پیچھے پڑ گیا ہے کہتا ہے یا تو میں اس کی شادی تم سے کر دوں یا وہ مجھے مار ڈالے گا
میری زندگی میں تو یہ ممکن نہیں کہ میں تمہاری شادی اس سے کر ڈالوں تمہاری ماں اسے مارنے کی کئی ترگیبیں کر چکی ہے لیکن وہ آج بھی زندہ سلامت ہے وہ بہت چلاک ہے میں اس کو آج ساف ساف جواب دے دوں گا شاید وہ فورا ہی مجھے مار ڈالے تم اپنی ماں کے ساتھ تیخانے میں چھپ جانا اور اس وقت تک نہ نکلنا جس وقت تک وہ بندر مایوس ہو کر واپس نہ چلا جائے شہزادی کہنے لگی ابا جان آپ کی جان اتنی ف
آپ صرف میرے لئے باپ ہی نہیں، اس سلطنت کے بادشاہ بھی ہیں۔ آپ کی ریایا کا آپ پر کچھ فرص بھی ہے۔ ریایا کو کون دیکھے گا؟ آپ جا کر بندر کو رشتے کے لئے ہاں کہہ دیں۔ تکدیر کو ہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ اگر میری قسمت میں یہ ہی لکھا ہے، تو وہ آپ کے مرنے کے بعد بھی ہو کر رہے گا۔ بادشاہ مان گیا۔ حالانکہ وہ پریشان تھا۔ مجبور تھا۔ جا کر بندر کو اپنی رضا مندی سنائی۔ بند
آپ شادی کی تیاریں کریں۔ ملکہ کے کان میں جب یہ بات پہنچی تو اس نے اسمان سر پر اٹھا لیا۔ بہت روئی دھوئی جان دینے کی دھمکیاں دی۔ بال نوچے، کپڑے پھاڑے لیکن ہونے کو کون تال سکتا تھا؟ نکاوالے دن بادشاہ نے ملکہ کوئی کمبرے میں بند کر دیا اور شادی ہو گئی۔ شہزادی رکست ہو کر بندر کے محل میں چلی گئی تب امہ جان کو کھولا گیا تو اس نے بہت وابہلا کیا۔ روئی پیٹی مگ
اگلے دن جب شہزادی مہل میں آئی تو بہت خوش تھی سب بہت حیران ہوئے اس کی امہا نے اسے گلے لگا کر رونے کا ارادہ کیا لیکن بیٹی نے کہا امہا اب رونے دونے کا کوئی فائدہ نہیں جو میری قسمت میں تھا وہ ہو گیا میں بہت خوش ہوں امہا کی تو حیرت کی انتہان نہ رہی وہ بولی تو اس بندر کے ساتھ خوش ہے شہزادی بولی ہاں میں خوش ہوں اب رونا دونا بند کرو شہزادی دن میں باب کے مہل میں رہ
اور شام ہوتے ہی اپنے مہل میں چلی جاتی کشی اور اتمینان اس کے انگمیں پھوٹ رہا تھا بیٹی کو خوش دے کر بازشاہ بھی مطمئن ہو گیا لیکن امی جان کو یہ بات کسی درہ حظم نہیں ہو رہی تھی کہ ان کی بیٹی بندر کے ساتھ کیسے خوش ہے ایک دن امہ نے چھانبین کرنے کی ٹھان لی رات کو اٹھی تو نوکرانی کی چادر اڑی اور بندر کے مہل کی طرف نکل پڑی عام طور پر رات میں بندر اپنے مہل کا دروازہ ب
لیکن اتفاق سے اُس دن پتہ نہیں کیسے دروازہ کلا رہ گیا۔ امہ جان چپکے سے اندر گھسی۔ شہزادی کی خواب گا کا دروازہ بند تھا۔ اندر سے ہسنے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کسی مرد کی آواز بھی تھیں۔ امہ جان نے تجوثس کے مارے طالعے کے سراق سے جھانکر دیکھا۔ اندر مسئری پر شہزادی کے پاس ایک خوبصورت شہزادوں میں ایک نوجوان بیٹھا تھا۔ دونوں ہسس ہسس کر ایک دوسرے سے باتے کر ر
اچھا یہ بات ہے جب ہی میں کہوں میری بیٹی اتنی خوچ کیسے رہتی ہے؟ پھر وہ جانے کو پلٹی تو ایک طرف بندر کی خال دکھائی دی۔ امہ نے سوچا جب اتنا خوبصورت اور جمعن ہے تو اپنے اوپر یہ اتنی موٹی خال کیوں رکھتا ہے؟ اگر میں اس خال کو جلا دوں تو پھر کبھی دوبارہ بندر نہیں بن سکے گا۔ یہ سوچ کر بندر کی خال اس نے اٹھا لی اور محل میں لے آئی اور آکھ کر اسے آگ لگا دی۔ ادھر خال میں آگ لگی۔
تر شزادہ جلنے لگا بچاؤ بچاؤ کہتا ہوا بھاگا اور غایب ہو گیا ادھر حیران پریشان شزادی محل میں پہنچی تو دیکھا کہ خال جل رہی تھی اس نے جلدی جلدی آگ بجھائی اور دیکھا کہ یہ کارستانی میری امی کی ہے ہائے امی جانا آپ نے یہ کیا کیا میرا سوہا گجار دیا کیا دشمنی تھی آپ کو مجھ سے امہ جان بولی مجھے کیا بتا تھا
میں نے تو سوچا کہ یہ موٹی خال رہے گی، نہ تمہارا دلہ یہ کبھی پہنے گا۔ شہزادی کا روتے روتے برا حال ہو گیا۔ بھولی ما، آپ سے کہا تھا نا کہ مجھے میری تقدیر پر چھوڑ دیں، لیکن آپ کو بھی چین نہیں تھا، اب تھندک بڑھ گئی آپ کو۔ امی جان چورسی بن گئی، خود اپنی بیٹی کو برباد کر دیا۔ باشا کو جب پتہ چلا تو اس نے خوب گھوڑے دھوڑائے، لیکن کہیں سے بندر شہزادی کی خبر نہ آئی۔
بیٹی کی حالت باشا سے دیکھی نہیں جاتی تھی سوکر کانٹا ہو گئی تھی نہ کاتی تھی نہ پیتی تھی نہ ہستی تھی نہ بولتی تھی کچھ دن ایسے ہی گزر گئے پھر شہزادی جوکر کے کپڑے پہن کر شہزادی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی جنگل جنگل سیرا سیرا بھٹکتے پھرتے پاؤں میں چھالے پڑ گئے سارا رنگ روپ پھیکا پڑ گیا ایک دن رات کو جنگل میں ایک بڑے پیڑ کے نی
اس پیڈ پر ایک چکوری بیٹھے تھے۔ چکور دراصل ایک خوشنما پرندہ ہوتا ہے جس کی چونچ اور پنجے سرخ رنگ کے اور اوپر کا ایسا سیاہ اس پر سفی چطریہ بنی ہوتی ہیں۔ بہت خوبصورت پرندہ ہوتا ہے۔ اور نر و مادہ دونوں اس پیڈ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ چکوری نے چکورے سے پوچھا کیا بات ہے چکورے؟ تم اتنے اداز کیوں ہو؟ چکورے نے جواب دیا کیا بتاؤں؟ چکوری یہاں سے پورب
میں وہاں کے شہزادے کے لیے پریشان ہوں اس کے سارے جسم پر بڑے بڑے آبلے پڑے ہوئے ہیں نہ وہ بچارہ سو سکتا ہے سارے ڈاکٹر اور حکیم ہار گئے کسی چیز سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا چکوری نے پوچھا شہزادے کی یہ حالت کیسے ہوئی چکورے نے کہا کسی ظالم نے شہزادے کو مارنے کی کوشش کی تھی اس کی جان تو بج گئی لیکن سارا بدن بری تنا سے جل گیا ہے چکوری نے پوچھا
چکورے! کیا ہمارے بازشاہ کی دھک کا کوئی علاج نہیں؟ چکورے نے کہا ایک علاج ہے اگر کوئی ہماری بیٹھہ کٹھی کر لے اور انھیں سندل کے ساتھ پیس کر چالیس دن تک سبا شام لگائے تو شہزادی کے زخم بھر جائیں گے شہزادی فورا سمجھ گئی کہ یہ اسی کے شہزادی کی بات ہے چکوری اور چکورہ سبا ہوتے ہی اڑ گئے شہزادی نے ساری پیڑ کے نیچے سے پڑھی ان کی بیٹھہ کٹھی کی اور ا
اور پورب کی طرف چلی گئی کچھ ہی دور اسے ایک شاندار شہر نظر آیا شہر بہت ہی خوبصورت تھا لیکن وہاں کی ہر چیز پر اداسی چھائی ہوئی تھی لوگ خاموش اور گمزدہ اپنے اپنے کاموں میں مسروف تھے شہزادی نے جس سے بھی اس کی واجہ پوچھی یہ ہی جواب ملا کہ ان کا شہزادہ موت کے قریب ہے اس لئے شہر پر واتم چھائیہ ہوا ہے شہزادی نے بزار سے سندل خریدی دوائے پیسنے وال
اور دوسرا ضرورت کا سامان خریدہ اور شاہی مہل میں جا پہنچی۔ پہرے دار سے کہنے لگی، پادشاہ سے کہو ہمالیہ کی پہاڑیوں سے ایک سادو تبیب آئے ہیں وہ بادشاہ شزادے کا علاج کر سکتے ہیں۔ پہرے دار دورتا ہوا گیا اور بادشاہ کو خبر سنائی۔ بادشاہ تو اس حتہ تک پریشان ہو چکا تھا کہ جو بھی بادشاہ کے لڑکے کے علاج کا دعویٰ کرتا اسے وہ بھلا لیتا۔ انہوں نے اس تبیب کو بھی بھلا
کہ یہ نوجوان طبیب کیا علاج کرے گا؟ بڑے بڑے نامی گرامی طبیب یہاں ہار چکے ہیں پھر بھی اس سے پوچھا بھائی تم کون ہوں اور کیا کرلوگے؟ دنیا بھر کے طبیب حکیم ہار چکے ہیں اب تو دعاوں کا ہی ساہرہ ہے شہزادی بولی حضور اگر چالیس دن تک شہزادہ ٹھیک نہ ہو تو چو چور کی سزا وہ میری سزا ہوگی پادشا فورا راضی ہو گیا شہزادی کہنے لگی
مجھے شہزادہ کے پاس والا کمرا چاہیے تاکہ میں دن رات ان کا علاج کر سکوں پاچھا کے حکم سے اسے فوراً کمرا دے دیا گیا جب شہزادی شہزادہ کے پاس پہنچی تو اس کی حالت دیکھ کر اس کا دل رونے لگا اس نے بڑی مشکل سے زبت کیا فوراً اپنے کمرے میں جا کر سندل کے ساتھ چکورا اور چکوری کی بیٹھ کٹھی کی پھر انھیں پیس کر بڑی احتیاط سے شہزادہ کے جسم کے سکھم ساف کیے شہزادہ در
پھر اللہ کا نام لے کر شہزادی نے وہ لیپ اس کے سارے جسم پر لگا دیا شہزادے کے زخموں میں تھندگسی پڑ گئی نا جانے کتنوں دنوں کے بعد اس کی آنکھ لگ گئی بادشاہ کے پاس جب یہ خبر پہنچی تو وہ سجدہ شکر بجال آئے انہوں نے حکم دیا کہ تبیب کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے شہزادی نے تیماداری میں اپنے دن رات ایک کر دئیے اور ہلکی طاقتور گزائیں کھلائیں اس کے زخموں کو صاف کرتی
ہفتہ بھر میں شزادہ کو اتنا فاکہ ہو گیا کہ وہ اپنے ایڈ گڑ کی چیزوں پر دھیان دینے کے قابل ہو گیا۔ پگڑی اور داری میں اسے یہ طبیب کچھ جانا پہچانا سا لگا لیکن اسے یاد نہیں آیا کہ اسے کہاں دیکھا تھا۔ وہ طبیب اس کے سامنے بہت کم بولتا تھا۔ مہینے بھر میں شزادہ کے زخم پوری طرح بھر گئے لیکن اب کھال کی کمی باقی تھی۔ ویسے ہی بھی چکورہ اور چکوری نے چالیس دن کے علاج کی بات کی تھی
تو شہزادی اسی طرح اس کے زخموں پر مرہم لگاتی رہی۔ شہزادہ اس کے خدمت کا دل سے متعرف تھا اور بادشاہ نے تو اسے بہت بھاری انام دینی کی تیاریاں کر رکھی تھی۔ لیکن ہوا کچھ یوں کہ چالیس دن کی دوایی شہزادی نے شہزادے کے جسم پر لگائی اور کسی سے کہے سنے بغیر محل سے نکل گئی اور سیدھی اپنے شہر کے لیے روانہ ہو گئی۔ البتہ اس نے شہزادے سے اس کی انگوٹھی ضرور مانگ لی تھی لیکن اسے یہ پتہ نہیں
کہ وہ چلی جائے گی۔ ادھر محل میں شہزادے کی جشن سیت کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھی لیکن طبیب کا کہیں پتا نہ تھا۔ شہزادہ پریشان تھا اور بادشاہ حیران تھا کہ ایسا نفیز آدمی تھا ایک پیسہ اجر لئے بغیر خاموشی سے چلا گیا نہ ہی کسی انام کا تکازہ کیا۔ وہ یقیناً اللہ کا بھیجا ہوا فرشتہ تھا جو ان کے بیٹے کو سیت اور نئی زندگی دینے کے لیے آیا تھا۔ مکمل س
اپنی نئی نویلی دلہن یاد آئی ابھی ان کی شادی کو دن ہی کتنے گزرے تھے کہ یہ مسیبت آن پڑی وہ جانتا تھا کہ اس حالت کی زمادار اس کی ساس تھی لیکن اس نے یہ بات کسی کو بھی نہیں بتائی ایک دن وہ اپنے والی سے اجازت لے کر شکار کے بھانے سے نکلا اور سیدہ اپنے سسرال چلا گیا اس نے شاہی لباس پہن رکھا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ فوج کا شکاری دستہ بھی تھا نوکروں نے اسے پورے اعترام کے سات
اور بادشاہ کو خبر کی بادشاہ بیٹی کے گم میں وقت سے پہلے بڑا ہو گیا تھا میمان کو کھڑے ہو کر تازیم دی بادشاہ نے پوچھا بیٹا تم کون ہو اور کہا کہ شہزادے ہو میں نے تمہیں پہچانا نہیں شہزادے نے بڑے عدب سے کہا آپ بھلے مجھے نہ پہچانے لیکن میں اپنے محسن کو کیسے بھول سکتا ہوں میں وہی بندر ہوں جس کو آپ نے اپنے برابر کا درجہ دیا تھا اور اپنی بیٹی سے میری شادی
پادشاہ اس کوپسور شہزادے کو دیکھتا رہ گیا کہاں وہ بندر اور کہاں یہ شہزادہ اس نے حیرت اور خوشی سے پوچھا لیکن یہ کیسے ممکن ہے شہزادے نے کہا میں آپ کو اپنی کہانی بعد میں سناؤں گا اب میں کیا اپنی دولھن سے مل سکتا ہوں پادشاہ نے کہا وہ بھی اسی محل میں رہتی ہے جہاں تم رہتے تھے اس نے تو دنیا ہی چھوڑ دی ہے تم وہاں جا سکتے ہو پادشاہ کو حیران پریشان چھوڑ کر شہز
سیدھا مہل میں آ گیا شہزادی گم کی تصویر بنی بیٹھی تھی پول سا چیرہ مرچایا ہوا تھا رو رو کر آنکھوں میں سیاہ ہلکے پڑ گئے تھے شہزادے کو اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر اسے یقین نہیں آیا شہزادے نے کہا ہاں شہزادی تمہاری محبت مجھے یہاں کھیچ لائی تمہاری ماں نے تو مجھے مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی میرا جسم بڑے بڑے آبلوں سے بھر گیا تھا میرے ب
پھر آپ ٹھیک کیسے ہوئے؟ شہزادی نے جواب دیا کہ اللہ کا بھیجاوے ایک فرشتہ تبیب کی شکل میں میرے پاس آیا چالیس دن میرے زکموں پر مرہم لگایا اور میری ایسی خدمت کی کہ کوئی کسی کی نہیں کرتا شہزادی نے پوچھا تب تو آپ لوگوں نے اسے بہت انام و کرام دیا ہوگا شہزادہ بولا نہیں حیرت کی بات تو یہی ہے کہ سوائی میری انگوٹھی کے اس نے کچھ نہیں لیا اور بغیر کسی کو بتائے چپ چاپ چلا گیا
شہزادی نے انگوٹھی دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ ہی انگوٹھی تھی؟ شہزادی نے کہا ہاں مگر تمہارے پاس کہاں سے آئی؟ شہزادی کہنے لگی وہ تبیب میں ہی تھی تو پھر اس نے ساری داستان کیے ڈالی اور وہ کپڑے دکھائے جو وہ تبیب کے بھیس میں پہنے رہتی تھی شہزادی کی تو خوشی کی انتہان آ رہی وہ بولا میں بہت خوش کسمت ہوں جسے تم جیسی دلہن ملی تمہاری ماں نے میری جان لینا چاہی تھی ل
شہزادی نے کہا، جان لینا اور بخشنا تو صرف اللہ کے اختیار میں ہے، انسان تو وسیلہ ہوتا ہے۔ میری ما بھی آپ کی دشمن نہیں تھی، آپ کو انسان کے روب میں دیکھ کر انہوں نے سوچا کہ اگر بندر کی خال جلا دیں تو آپ ہمیشہ انسان بنے رہیں گے۔ انہوں نے تو میرا اچھا ہی چاہا تھا، گلطی آپ کی بھی تھی۔ آپ کو کم از کم مجھے تو یہ بتا دینا چاہیے تھا کہ آپ کے بندر کی بھیس میں رہنے کے بیچھے کیا راز ہے؟ تو میں اس خال کو اپنی جان سے زیادہ ح
شہزادہ نے کہا اصل میں مجھے اس کا موقع ہی نہیں مل پایا ہماری شادی کو دن ہی کتنے ہوئے تھے سوچا تھا اتمینان سے تمہیں بتاؤں گا یہ مسیبت آ گئی دراصل بڑی لمبی داستان ہے شہزادہ نے کہا آپ بتا دیجئے شہزادہ نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ تو تم جان ہی چکی ہو میرے والد بھی بھاشا ہیں اور میں ان کی وقلوتی اولاد ہوں شہزادگی کا زمانہ سہر و شکار اور تفریحات میں گزرتا تھا
تقریبا سال پر پہلے کی بات ہے میں اپنے مسائبوں کے ساتھ شکار کے لئے نکلا جنگل میں مجھے ایک بہت ہی خوبصورت ہیرن نظر آیا میں نے تاک کر تیر چلایا لیکن وہ نظروں سے اوجل ہو گیا میں نے جب اس کا پیچا کیا میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا اور بہت دور نکل آیا میں نے دیکھا چشمے کے کنارے ایک بزرگ کی صورت والے آدمی بیٹھے ہیں اور ان کے پاس ایک دس بارہ سال کا لڑکا لیٹا ہوا تھا
اور وہ بزرگ لڑکے کے زکم کو دھوتے جا رہے تھے اور رو رو کوئی شخص کو بدوائیں دی جا رہے تھے جس نے یہ تیر مارا تھا میری شکل دے کر غصہ سے بولے آدمی ہو یا بندر تمیز تحصیب تو تمہیں چھو کر ہی نہیں گزری بزرگ کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ میں بندر میں بدل گیا انہوں نے کہا جا اور جنگل میں بھٹکتا پھر کوئی ٹکانہ نہیں ملے گا تجھے ان کی بدوائیں سے اور اپنی حالت سے میں اتنا پریشان ہوا
کہ میں نے ان کے پاں پکڑ لئے رو رو کر میری حالت دیکھ کر اس لڑکے کو میرے اوپر ترس آ گیا اس نے بزرگ سے کہا دادا جان انسان اپنی گلطی معل لے تو اسے معاف کر دینا چاہیے یہ بھی شرمندہ ہے اسے معاف کر دیں دوبارہ انسان بنا دیں لڑکے نے جب بہت زیادہ اسرار کیا تو بزرگ بولے اسے دیکھ اس کو تونے زخمی کیا اور یہ تیری سفارش کر رہا ہے خیر میں اپنی بدوا تو واپس نہیں لے س
لیکن کم کر سکتا ہوں سال بھر تو بندر ہی رہے گا جب کوئی لڑکی تم سے ہمدردی کرتے ہوئے شادی کرنے پر تیار ہو جائے گی تو تب تم اپنی سلسلی صورت میں واپس آ جاؤ گے اگر سال گزرنے سے پہلے تمہاری شادی ہو گئی تو صرف ہمدرد بیوی کے سامنے انسان کی شکل میں آ سکو گے لاچار ہو کر میں وہاں سے واپس آ گیا اب میرا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اتنے گھر لوٹ نہیں سکتا تھا چھے ماہ ت
پھر ایک دن تمہارے والد وہاں سیر کرنے کے لئے آئے انہوں نے مجھ پر عیسان کیا مجھے اپنے ساتھ لے آئے میری ہر فرمائش پوری کی تمہیں مجھ سے ہمدردی پیدا ہوئی اور اپنے باپ کی جان بچانے کے لئے تمہیں مجھ سے شادی کر لی باقی کا حال تمہیں معلوم ہے جب تمہاری مانے کھال میں آگ لگائی تھی تو اس درویش کی بدوہ پوری ہونے میں کچھ دن باقی تھے ابھی شزادہ یہ کہانی سنا رہا تھا
بیگم یعنی ملکہ نے اپنی گلطی کے معافی مانگی اور بازشاہ نے کہا شزادے ہمارا کوئی بیٹا نہیں ہے تم ہی ہمارے بیٹے ہو تو یہ ملکت سنبھالو شزادے نے کہا ابھی تو مجھے اپنی دلہن کو لے کر اپنے ملک جانا ہے وہاں میرے والدین میرا انتظار کر رہے ہیں لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کا ہاتھ بٹانے آتا رہنگا بازشاہ نے دھوم دھام سے بیٹی کو رکست کیا اور دونوں خاندان خوشی خوشی زند
What's Your Reaction?