ملکہ، نوجوان اور شہزادی کی کہانی

ملکہ، نوجوان اور شہزادی کی کہانی

Nov 19, 2024 - 15:15
 0  6
ملکہ، نوجوان اور شہزادی کی کہانی


اسلام علیکم دوستو جین سوڑی ٹیوی میں خوش شامدید کیارے دوستو بہت عرصہ گزرا کسی ملک میں ایک نیائید خوبصورت ملکہ رہا کرتی تھی اس کا چیرہ گلاب کی معنید اور آنکھیں چمک دار تھیں لیکن اس کی تمام خوبصورت تھی اس کے زردی معل بالوں میں تھی یہ بال اتنے لمبے تھے کہ ملکہ کے پانوں کو چھوٹے تھے بادشاہ کو ملکہ کے بالوں سے بڑی محبت تھی اس کیلئے جوارات


اور کسم کسم کے پھول روزانہ بھیجا کرتا تھا تاکہ اس کی ملکہ ان کو اپنے بالوں میں پروئے رکھے۔ مہل کے چھوٹے بڑے سم ملکہ کے بالوں کی تاریخ کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ اگر ان بالوں کو خدانہ خاصتہ کوئی صدمہ پہنچے گا تو بڑا ہی غظب ہو جائے گا۔ ایک دن ملکہ سباہ مہل کی کھڑکی کے پاس بیٹھے کچھ کام کر رہی تھی۔ اس کو ایک بڑا سبس پریندہ اٹاوہ نظر آیا۔


سبز پرندہ کچھ دیر تو کھڑکی کے قریب ارتا رہا اور پھر سامنے والے درخت پر جا کر بیٹھ گیا اور ملکہ کو گھورنے لگا ملکہ نے اس کی طرف سے نظرے ہٹائی تھی کہ وہ بول اٹھا سلام ملکہ صاحبہ تمہارے بال تو بہت لمبے ہیں ملکہ کھل کھلا کر ہس پڑی اور دل میں سوجنے لگی ایک پرندہ بھی میرے بالوں کی تاریف کر رہا ہے ملکہ بولی ہاں دنیا میں کسی عورت کے بھی میرے


پرندہ بولا پھر تو زرہ سے بال مجھ کو بھی دے دو میرے گھوصلے میں کوئی نرم چیز نہیں ہے تمہارے تھوڑے سے بالوں سے میرا کام چل جائے گا ملکہ غصے میں بولی کیا بک رہے ہو میرے بال میرے خوبصورت بال تیرے گندے گھوصلے میں رکھنے کیلئے ہے کیا کیا تم نہیں جانتا کہ میں ملکہ ہوں اور اپنے بالوں کو دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ عزیز رکھتی ہوں پرندہ بولا میرا کام تو چلی جائے گا ملکہ صاحبہ


تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تھوڑے سے بال مجھے دے دو ملکہ بولی نہیں نہیں میں کبھی نہیں دوں گی میں نے ایسی بکواز کبھی نہ سنی چاوری یہاں سے واننا بھی سپائیوں کو بلوا کر مروا ڈالوں گی پرندہ حسکر بولا وہ مجھ کو نہیں مار سکتے ملکہ علیہ تمہارے لیے بہتر یہ ہے کہ تم ان کو اس کے کام سے باز رکھو میں اپنا سوال پھر دوراتا ہوں ملکہ کیا تم تھوڑے سے بال مجھے دھوگی


ملکہ چیک کر بولی، تبھی نہیں۔ سبس پرندے نے اور کچھ نہ کہا، بلکہ وہ درخت کے گرچکر کھٹنے لگا اور ذیمی آواز سے گانا گانے لگا۔ پتجر جب آئے گی، ملکہ کے بال کھائے گی، برسات پتے لاے گی، ملکہ بال نہ پائے گی۔ جب یہ گیت ختم ہوا تو پرندے نے ایک زور کی چیخ ماری اور ملکہ کو حیران اور خوف صدا چھوڑ کر اڑ گیا۔ گرمیاں ختم۔


اور سردیاں شروع ہونے کو آئیں ہواں کے جھوکے چلنے شروع ہوئے اور درختوں کے پتھے جڑ کر زمین پر آگیرے درختوں کے پتھوں کے ساتھ ساتھ ملکہ کو بھی اپنے کچھ بالوں سے ہاتھ دھونا پڑا ملکہ روتے ہوئے اکدام اٹکڑی ہوئی اور بادشاہ کے پاس جا کر تمام واقعہ کیا سنایا بادشاہ ملکہ کے سوائم پر حسنے لگا اور بولا تم کو ایک پرندہ کیسے نقصان پہنچا سکتا ہے


اور آجائیں گے باچہ کے اس سوال سے ملکہ کو تسلی نہ ہوئی اسی رات جب ملکہ کی باندیاں اس کے بالوں کو گوند رہی تھی بہت سے بال اور جڑ گئے صبح جب اس کی آنکھ کھولی تو بہت سے لمبے لمبے سنیری بال بستر پر پڑے ہوئے نظر آئے ملکہ یہ دیکھ کر رونے لگی اس نے فوراً ایک دانہ آدمی کو بلویا جو اپنے سات قسم قسم کے رنگوں کی دمائیں ملکہ کے بال دوبارہ اگانے کے واسطے لے کر آیا تھا


مگر ان سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔ دنیا کی تمام دوائیں بیکار ثابت ہوئیں۔ یہ ساف ظاہر تھا کہ ملکہ کے بال نہائی تیزی سے جڑ رہے تھے۔ ملکہ درخت کے پتے جڑتے ہوئے دیکھنا ارگز پسند نہیں کرتی تھی۔ لیکن ہوا کے چلنے کے ساتھ ساتھ پتوں کے جڑنے کی آوازیں اس کے کانوں تک پہنچ رہی تھیں۔ وہ روتے روتے سوچا کرتی تھی کہ مرے بار اتنی جلدی غائب ہو جائیں گے۔ ایک رات بڑے ز


دوسرے دن صبح کو ملکہ خدکی کی طرف دوری اور دیکھا کہ درکھ پر ایک بھی بطا نہیں۔ پھر وہ آئینے کی طرف گئی اور اپنے سر کو بلکل گنجا پایا۔ اس منظر کو دیکھ کر ملکہ نے ایک چیخ ماری اور بھیحوش ہو کر گرپڑی۔ اس کی باندیاں ملکہ کو اٹھانے کے لئے دوری۔ باشا کو جب یہ خبر ملی تو وہ بھی رونے لگا۔ شہر کے بڑے بڑے اکلمن لوگ ملکہ کے بال دوبارہ اگانے کے لئے جمع ہوئے۔


کوئی کہتا فلاں تیل استعمال کیا جائے اور کوئی کسن کسن کے صغوف کلانے کو بہتر سمجھتا۔ غرض جتنے مو اتنی باتیں۔ ان تمام تجربوں کیلئے ایک عرصہ درکار تھا۔ اس لئے ملکہ نے کہہ دیا کہ جب تک تم کوئی ٹھیک فیصلہ نہیں کرو گے، اس وقت تک میں اپنے محل میں رہوں گی۔ بازشاہ نے اعلان کرا دیا کہ ملکہ بیمار ہے، لیکن بیماری کی اصلی وجہ کو راز میں رکھا گیا۔ اکلمن لوگ۔


کسی مفید نتیجے پر نہ پہنچ سکے قسم قسم کے تیل اور سفوف استعمال کرنے کے بعد بھی ملکہ کا سر بالوں سے خالی رہا یہ راز آخر ظاہر کرنا ہی پڑا اور ملک میں منادی کرا دی گئی جب تک ملکہ کے بال دوبارہ نہ اُگے لوگ کالا لباز استعمال کریں ملکہ نے اپنے گنجے سر کو چھپانے کے لیے ایک چھوٹی سی کالی ٹوپی پہن لی اگرچہ ٹوپی میں بے شمار قیمتی ہیرے ٹگے ہوئ


لیکن پھر بھی وہ بالوں کی نسبت خوبصورت نہ تھی بلکہ اس ٹوپی کو پینتے وقت وہ رویا کرتی تھی ملکہ پر گم کے مارے کھانا پینا حرام ہو گیا تھوڑے عیر سے کے بعد بخار بھی آ گیا ایک رات ملکہ نے خواب میں ایک چھوٹے سے بونے کو دیکھا بونے کا لیبہ سبز رنگ کا تھا بونا ملکہ کو دیکھ کر ناشنے لگا اور گانے لگا گاس نہ پاؤں جہاں ڈال دو بیچ وہاں


یہ گاتے ہوئے اس نے تھوڑے سے بیچ زمین پر ڈال دیئے بیچ ڈالتے ہی پہلے تو ایک پوڑا پھوٹا پھر بڑتے بڑتے ایک درکت پن گیا اس درکت میں پتنوں کے بجائے بالوں کی کوپلے تھی جو بڑتے بڑتے زمین کو چھونے لگیں ملکہ کی آنکھ کھل گئی اس کے دل میں بالوں والے درکت کے سوا اور کوئی خیال نہ تھا دوسری رات ملکہ کو یہ خواب پھر دکھائی دیا آخر جب تی


تو اس نے باشا کو بلا کر اپنا خواب کیا سنایا اور بولی اب تو بالوں والے درکھت کے بیجوں کے سوا کوئی چیز ایسی نہیں جو میرے بالوں کو دوبارہ اُگھا سکے۔ میں انتجا کرتی ہوں کہ تم اپنی تمام کوشش اس درکھت کو تلاش کرنے پر صرف کر دو اور منادی کرادھو جو شخص اس درکھت کا بتا لگائے گا اس کو مالا مال کر دیا جائے گا۔ یہ کہہ کر ملکہ اپنے بستر پر گر گئی اور آنکھیں بند کر لیں۔


بازشاہ نے فوراً اپنے وزیروں کو اکٹھا کیا اور ان کو ملکہ کے خواب سے آگا کیا شہر میں جگہ جگہ اشتہار لگا دئیے گئے کہ جو کوئی بالوں والے درخت کی بیج لے کر آئے گا یا اس درخت کا پتہ بتائے گا اس کو بازشاہ کی طرف سے ایک لاکھ روپے انام ملے گا اب کیا تھا ہر شخص کی زبان پر بالوں والے درخت کا نام سنا جانے لگا اور ہر ایک شخص اتنا بڑا انام حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگا


اس شہر میں ایک بڑا ڈلیر و نڈل لوچوان ہیدل نامی بھی رہا کرتا تھا اس کے ماں باہ بہن بھائی سم مر چکے تھے وہ اس دنیا میں بالکل اکیلا تھا اس کے باس لے دے کر صرف ایک کشتی باقی رہ گئی تھی جب اس نے بازشاہ کا اشتہار پڑا تو وہ سوچنے لگا ایک لاکھ روپیا میں بالوں والے درکھ کو تلاش کر کے رہوں گا چاہے مجھے کتنی ہی مسیبتوں کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے


حیدر نے بچبن میں اپنے معاباپ سے سنا تھا کہ شمال کی طرف ایک ایسا علاقہ ہے جہاں دھرندے اور پرندے انسانوں کی طرح بولتے ہیں اور پولوں کے ہاتھ اور آنکھیں ہوتی ہیں بس اس نے تھوڑا سا سامان اپنی کشتی پر لادا اور شمال کی جانب بھالوارے درک کی تلاش میں چل پڑا شہر کی آدھی عبادی تقریباً اسی درک کی تلاش میں روانہ ہو چکی تھی کوئی شمال کی طرف گیا کوئی جنوب کو روانہ ہوا


کوئی مشرق کی سمجھ چل پڑا کسی نے مغرب کی جانب کوچ کیا غرض لوگوں نے اس درخت کو ہر طرح سے تلاش کرنا شروع کیا کئی آدمی جلدھی واپس آ گئے بالوں والے درخت کا پتہ کسی کو بھی معلوم نہ تھا اسی طرح کئی مہینے تک ملکہ کا سر گنجا ہی رہا بادشاہ نے تمام اورتوں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ اپنے بالوں کو ایک چھوٹی سی کالی ٹوپی پہن کر چھپانے کی کوشش کریں


تاکہ ملکہ کسی عورت کی بار دیکھ کر رنجیدہ نہ ہو۔ یہ کالی ٹوپیاں اس قدر بے ڈھنگی ہوتی تھی کہ تمام عورتوں کی صرف یہی خوایش تھی کہ باروں والے درخت کا کسی طرح جلد پتا لگ جائے۔ اور دوسری طرف حیدل شمال کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ کئی دن تک اس کو پانی ہی پانی نظر آیا۔ آخر اسے دور سمندر میں ایک بیران جزیرہ دکھائی دیا۔ اس جزیرہ پر سوائے تین درختوں کے اور کچھ نظ


دوسرے درخت میں سرخ و سفید ہیری لٹک رہے تھے لیکن تیسرا درخت بڑا عجیب و غریب تھا۔ یہ درخت دور سے سونے کا بنا ہوا مالوم ہوتا تھا۔ اس کی چوٹی شکل میں بالکل ایک بڑے ڈھول کی ماند تھی۔ حیدل اپنی کشتی کنارے پر کھینچ لائیا اور ان درختوں کی طرف چل پڑا۔ وہاں اس نے کچھ سرخ پھلیاں اور ہیریہ کٹھے کیئے۔ ابھی تک وہ ڈھول والے درخت کو بڑے غور سے دیکھ ہی رہا تھ


ڈھول دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور اس میں سے گیارہ سنری پلیاں نکل کر زمین پر آگری۔ وہ درخت اسی وقت جل کر راک کا ڈھر بن گیا۔ حیدل خوف کے مہارے زمین پر اوندہ ہو گیا جب ہر طرف خاموشی چھا گئی تو وہ اٹھا اور ڈرتے ڈرتے ان گیارہ خوبصورت سنری پلیوں کو اٹھا کر اپنی کشتی کی طرف بھاک کھڑا ہوا۔ حیدل اس جزیرے سے روانہ ہوا تو بہت سے مچلیاں اس کی کشتی کے قریب آ گ


اس نے ان کو بکڑنا چاہا تو وہ کل کلا کر ہس پڑھی۔ اس واقعے سے حیدل کو یقین ہو گیا کہ اب وہ ضرور اس جگہ کے قریب پہنچنے والا ہے جہاں ہیوان انسان کی طرح بولتے ہیں اور پھولوں کے ہاتھ ہوتے ہیں۔ اسی وقت اس نے ایک آواز سنی سر اٹھا کر دیکھا تو ایک بڑے سبس پریندے کو کشتی کے گرد مڑلاتے ہوئے پھائیا۔ سبس پریندہ نیچے اترا اور کشتی کے سیلے پر بیٹھ کر حیدل کو گھورنے لگا اور تھوڑی دیر کے


کیا تمہاری اس تھیلی میں پھلیاں ہیں؟ حیدل بولا جی ہاں یہ تھیلی کھول کر میرے آگے رکھ دو حیدل کو ملکہ کا قصہ یاد آ گیا کہ وہ ایک پریندے کا کہانہ مان کر کیسی پشیمان ہوئی اس لئے اس نے جلدی سے سبس پریندے کی بات مان لی سبس پریندہ پھلیاں کھاتے ہوئے بولا تمہارا کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ اس کے جواب میں حیدل نے اس کو ملکہ کا تمام قصہ شروع سے آخر تک کہہ سنوائیا


سبس پریندہ ہستے ہوئے بولا میں سمجھ گیا وہ پریندہ میں ہی تھا۔ چھا زرا سے پلیاں اور نکالو۔ حیدل نے کئی اور پلیاں دے کر باشا کا حکم سنایا اور پھر یہ بھی بتایا کہ وہ بالوں والے درکھ کی تلاش میں گھر سے نکلا ہے۔ سبس پریندہ بولا، اس درکھ کو ڈھوننے کے لیے تمہیں کافی عرصہ درکار ہے۔ اگر ملکہ اس درکھ کے بیجوں کو حاصل کرنے کے بھروسے پر ہی رہی۔


تو شاید تمام عمر اپنے بال حاصل نہ کر سکے گی اب وہ یہ سوچتی ہوگی افسوس میں نے سبس پریندے کی بات کیوں نہیں مانی سبس پریندہ چیکھ کر بولا یہ کیا ہے چلدی بتا تو یہ کہاں سے لایا یہ ضربل درد کی پھلیاں ہیں دو ہزار سال کا عرصہ میں نے صرف ان پھلیاں کو انتظار میں گزارا اور اب یہ دوبارہ دو ہزار سال کے بعد آئیں گی افسوس ان کے نکل دے وقت میں وہاں موجود کیوں نہ تھا


دنیا میں کہیں بھی ان سے اچھی پھلیوں والا درخت نہیں ہے۔ حیدل سمجھ گیا اس واقعے سے سبس پریندوں کو بہت دکھ پہنچا ہے۔ حیدل بولا سنو یہ پھلیاں میں نے حاصل کی ہیں اب میں ان کا مالک ہوں۔ ہاں صرف ایک شرط پر تم کو سنیری پھلیاں دے سکتا ہوں۔ سبس پریندہ بولا کیسی شرط تم نے ملکہ کو اس کے بالوں سے محروم کیا۔ اب اگر یہ بتا دو کہ ملکہ کے بال دوبارہ کس طرح آئیں گے۔


تو ایک سنیری پلی تم کو مل جائے گی۔ سبس پریندہ غصے سے بولا کیا؟ تمہیں یہ بتا دوں کہ ملکہ کے بال دوبارہ کس طرح آئیں گے؟ کبھی نہیں اچھا تو یہی بتا دو کہ بالوں والا درت کس جگہ پر ہے؟ سبس پریندہ کچھ دیر تو خاموش بیٹھا رہا آخر نہائی تیزی سے اسمان کی طرح پڑ گیا حیدل اسے دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا اس نے جان لیا کہ سبس پریندے کو سنیری پلیوں کی صغص ضر


اور وہ ضرور واپس آئے گا۔ حیدل کا خیال ٹھیک نگلا، وہ تمام دن بغیر کسی جزیر کو دیکھے، اپنی کشتی چلاتا رہا۔ دوسری دن صبح اس نے دور اسمان پر ایک کالی لکیر دیکھی۔ آنک چبکتے ہی وہی سبس پرندہ اس کی کشتی پر آن بیٹھا۔ حیدل نے سبس پرندے کو دیکھا لیکن زبان سے کچھ نہ کہا۔ آخر پرندہ خود ہی بول پڑا اگر تم کل والی شرط کو نہیں بھولے ہو۔


تو تم کو بالوں والے درکت کا بتا بتا سکتا ہوں۔ حیدل نے تھلی میں سے ایک سنگری پھلی نکالی اور بولا پہلے درکت کا بتا بتاؤ بعد میں یہ پھلی مل جائے گی۔ پریندہ بولا دیکھو تمہاری ناک کے بالکل سید میں ایک جزیرہ ہے وہاں وہ درکت کھڑا ہے تم سے پہلے اس جگہ بہت سے آدمی پہنچے لیکن تمام لوگوں کو واپس آنا پڑا۔ حیدل نے پھلی دے کر کہا اس کی کیا وجہ تھی؟ پریندہ بول


میں نے پتہ بتا دیا ہے وجہ خود جا کر معلوم کر لو حیدل کچھ دیر سوچنے کے بعد بھولا اگر تم وہاں سے سعی سلامت باپس آنے کا راستہ بتا دو تو چھے سنری فلیاں باپسی کے وقت تم کو اور مل جائیں گی ورنہ ابھی گولی سے اڑا دوں گا پرندہ ہستے ہوئے بولا تم مجھ کو مار نہیں سکتے چاہے گولی چلا کر دیکھ لو اگر تمہارے پاس یہ سنری زربل فلیاں نہ ہوتیں


تو تمہارا ابھی تک نام و نشان بھی نہ رہتا۔ صرف یہی پلیاں ہیں جو مجھ سے تمہاری حفاظت کر رہے ہیں۔ کھر ان سنیر پلیاں کو حاصل کرنے کے لیے اب مجھے وہی کرنا پڑے گا جو تمہیں منظور ہو۔ لیکن پکا وعدہ کرو کہ واپسی کے وقت چھے پلیاں ضرور دھوکے۔ حیدل نے چھے پلیاں دینے کا وعدہ کیا تب پرندے نے کہنا شروع کیا اس جزیرے پر پہنچ کر سیدھے شمال کی طرف بھرتے رہنا۔ تمہیں


کہ وہاں تمام درندے اور پرندے انسانوں کی طرح بولتے ہیں لیکن ان سے ہرگیز بات نہ کرنا اور یہ بھی آدھ رہے کہ وہاں پھولوں کے ہاتھ ہوتے ہیں وہ ہاتھ تم کو بکڑنا چاہیں گے اگر ان میں سے کسی نے تم کو بکڑ لیا تو یہ سنیری پھلیاں بھی تمہارے کچھ کام نہ آئیں گی اور تم مر چاؤ گے کافی فاصلہ تحقیق کرنے کے بعد تم کو ایک دوار نظر آئے گی جس کے ایک بڑے لکڑی کے دروازے پر یہ لکھا ہوگا


ایک بھید ہے، ایک راز ہے، جانے کا کسے مجاز ہے، جائے گا وہی جو ہوگا نہ ڈر۔ تم اسی وقت یہ کہہ دینا، جانتا ہوں کیا راز ہے، جانے کا مجاز ہے، ہوا ہے چلتی، پانی ہے بہتا، درکتیوں ہی بڑھتا رہتا۔ یہ کہتے ہی تمہارے داخل ہونے کے لیے دروازہ کھل جائے گا۔ اسی فصیل کے اندر بالو والا درکت کھڑا ہے، تم وہاں کیا پاؤ گے؟ یہ میں نہیں بتانا چاہتا۔


اتنا کہہ کر سوز پرندہ اڑ گیا۔ اسی دن شام کے وقت حیدل کو ایک جزیرہ نظر آیا۔ اس نے اپنی کشتی کو کنارے پر لے جا کر بھاندھ دیا۔ اور خود شمال کی سمجھ چل پڑا۔ یہ بڑا خوبصورت جزیرہ تھا۔ پہلے پہل تو کوئی عجیب واقعہ پیش نہ آیا۔ جب اس نے کافی راستہ تحقیق لیا تو خوبصورت پھولوں کی کتاریں نظر آئیں۔ حیدل پھولوں کو دیکھنے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ اچ


دو سفید خوبصورت ہاتھ باہر نکلے اور حیدل کو مضبوطی سے بکڑ کر اپنی طرف کھیچنے لگے۔ اسی وقت دوسرے پھولوں کے ہاتھ بھی آجتا آجتا بار نکلنا شروع ہوئے۔ بڑے پھولوں میں سے کوبصورت اورتوں کے چہریں نمودار ہوئے۔ حیدل نے یہ سوچ کر کہ یہ پھول اس کو اسی سخت کھیچا تانی میں مار ڈالیں گے۔ اپنی جیم میں سے کچھ سبزیریں نکالے اور پھولوں کے قریب لے جا کر چلایا۔ یہ ہیرے ل


پولوں نے اس کو اب بھی نہ چھوڑا تب وہ دوبارہ چلایا اگر تم نے مجھ کو نہ چھوڑا تو یہ ہیرے میں تم سے دور پھینک دوں گا اور تم حاصل نہیں کر سکو گے اب اس پول نے بندش جھیلی کر دی اور اس کو چھوڑ دیا حیدل خوف صدا ہو کر زمین پر گر پڑا اور کچھ ہیرے اس نے ان کے ہاتھوں کی طرف پھینکے اور پھر دوڑ پڑا بھاگتے بھاگتے وہ تھک کر چور ہو گیا اور آرام کرنے کے لیے ایک پتھر پر بیٹھ گیا


پتھر پر بیٹھے بیٹھے جو اس کی نظر گھاس پر پڑی تو دیکھا بے شمار ننے ننے ہاتھ ہوا میں ہل رہے ہیں ایک کہکا لگا کر اس نے اپنا ہاتھ گھاس پر لکھا ایک دم سیکڑوں ہاتھوں نے اس کو پکڑ لیا لیکن وہ اتنے کمزور تھے کہ ایک ہی جھٹکے میں حیدل کا آت آزاد ہو گیا حیدل حیران تھا کہ اس علاقے میں جہاں پھول جاندار مالوں ہوتے ہیں کوئی بھی درندہ نہیں وہ یہ سوچی رہا تھا


کہ ایک انسانی آواز سنائی دی اس نے نظر اٹھائی تو اپنے سامنے ایک بھیڑیے کو کھڑا پایا حیدل اس کو گولی مارنے ہی والا تھا کہ بھیڑیا نہائت نرم آواز میں کہنے لگا تم مجھ کو ناہک کیوں مارتے ہو میں کوئی نقصان نہیں پوچھاؤں گا تم یہاں کیسے آئے جب سے میں یہاں آیا ہوں میں نے کسی انسان کی شکل تک نہیں دیکھی بھیڑیے کو اتنی ساف زبان میں بولتے ہوئے دیکھ کر وہ بڑا ح


میرا نام حیدل ہے میں بالوں والے درکھ کی تلاش میں نکلا ہوں بتاؤ تم کون ہو میں نے آج تک کسی بھیڑیا کو انسانی کی بولی بولتے نہیں دیکھا میں بھیڑیا نہیں ہوں میرا نام ترادینا ہے مجھ کو ایک پرینہ عورت کی شکل سے بھیڑیا کی شکل میں بدل ڈالا آپ یہ بتائیے کہ یہاں تک زندہ کیسے پہنچ گئے اور آپ کو بالوں والے درکھ کی کیا ضرورت پڑ گئی حیدل نے اس کو تمام گزرہاوہ واقعہ کیا سنایا پھر وہ


ذربل درکھ کی پلیوں نے تم کو بچا لیا، ورنہ اس سبس پرندے نے تم کو مار ڈالا ہوتا۔ ان پلیوں نے تم کو جزیرے کے مختلی خطروں سے بھی بچا لیا جن سے تم واقع نہیں۔ تم ہی ایک واید انسان ہو جو اتنی دور تک پہنچ گئے۔ میں تم کو دے کر بہت خوش ہوئی۔ یہ کہہ کر بھیڑیا رونے لگا۔ حیدل بولا میں تمہاری مدد کیس طرح کر سکتا ہوں؟ میری مدد بالوں والے درکھ کے چاروں طرف


اوچے اوچے سنیری پودے اُگے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک پودا توڑ لانا اب تمہارے سفر کا وقت ہے، میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکتی ذربل پھلیوں کو بہت حفاظت سے رکھنا کیونکہ یہ پھلیاں ہر آفت سے تمہیں بچائیں گی میں یہاں پر تمہارا انتظار کروں گی حیدل چلتا گیا، آخر چلتے چلتے راستہ تنگ ہو گیا اور پہاڑیاں ہر طرف بلن ہونا شروع ہو گئیں یہاں تک کے آپس میں مل گئیں اور راستے میں ادھی


ہر طرف ایک خوفنا خاموشی چھائی ہوئی تھی اور دور سے پانی بھیھنے کی آوازیں آ رہی تھی چلتے چلتے وہ ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں پہاڑیاں اس کے سامنے آگئیں ان پہاڑیوں میں ایک چھوٹا سا دروازہ نظر آیا حیدل نے دروازہ کھولا اور اندھیرے میں آگے بڑھتا چلا گیا آگے جا کر اس کو کچھ روچنی نظر آئی اور تھوڑی دیر کے بعد ایک بہت ہی اچھی دیوار سامنے آگئی اس


دیوار میں ایک بڑا سا دروازہ لگا ہوا تھا جس پر یہ لکھا تھا ایک بھید ہے ایک راز ہے جانے کا کسے مجاز ہے جائے گا وہی جو ہوگا نہ ڈر حیدل کو سبس پرندے کی بات یاد آ گئی اس نے دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر کہا جانتا ہوں کیا راز ہے جانے کا مجاز ہے ہوا ہے چلدی پانی بہتا درختیوں ہی بڑتا رہتا یہ کہتے ہی دروازہ اکتم کھل گیا


اور حیدل اس کے اندر داخل ہو گیا۔ حیدل جیسے ہی اندر داخل ہوا اس کے سامنے ایک کھولا سا میدان تھا اس کی آنکھے روشنی سے چُنڈھیانے لگیں کیونکہ وہ بہت دیر تک اندھیرے میں رہ چکا تھا یہاں ہر طرف سبزرنگ کی روشنی پھیلی ہوئی تھی حیدل کے سامنے کالے رنگ کا دریا بے رہا تھا دریا میں ایک جزیرہ تھا جس میں ایک چھوٹی سی پہاڑی کی چھوٹی پر بالوں والا درک


کیونکہ اس کا سفر کامیاب ہو گیا۔ اس درخت پر پتوں کے بجائے نرم نرم بال لگے ہوئے تھے۔ حیدل کو بالوں والا درخت ساف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کیونکہ درخت کافی چوڑا تھا۔ لیکن یہ ساف ظاہر تھا کہ جزیر چھوٹے چھوٹے پوڑوں سے گرا ہوا تھا۔ وہ دریہ کے کنارے بیٹھ کر اس کو پار کرنے کی تطبیریں سوچنے لگا۔ بیٹھے بیٹھ اس نے زربل فلی کو نکالا اور اسے دیکھنے لگا۔ اسی


اور ایک بہت بڑی بدتخ پانی سے بھاہر نکلی اس کا رنگ سنیری اور آنکھیں آگ کی معنی سرکھ تھی حیدل اکدم اٹھ کر کھڑا ہو گیا کیونکہ یہ بدتخ بہت زیادہ ناراض معلوم ہوتی تھی وہ پانی سے بھاہر آتے ہی بولی تم کون ہو اور یہاں بالوں والے درخت کے اتنے قریب کیا کر رہے ہو؟ حیدل بولا مجھے اس درخت کے کچھ بیج لے لیں ہیں اگر تم اس دریہ کو پار کرنے کا کوئی راستہ بتا دو


سنیری بتک کچھ نہ بولی اس کی آنکھیں زربل پلی پر جمی ہوئی تھی اور وہ دھیمی آواز میں بولی یہ تمہارے ہاتھ میں کیا چیز ہے اوہو یہ تو زربل پلی ہے دو ہزار سال گزرے میں نے ایسی پلی کھائی تھی اس کا ذرا سا ٹکڑا مجھے بھی دے دو حیدل بولا لیکن ایک دم رک گیا اور بات پلڑ کر کہنے لگا اگر تم مجھ کو اپنی پیٹ پر لات کر اس دریہ کے پار پہنچا دو


اور جب میں بیج لے آوں، تم مجھے واپس لے آؤ تو یہ پلیہ میں تم کو دے دوں گا۔ سنیری بطتق کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی، اچھا مجھے منظور ہے۔ اتنا سنتے ہی حیدل اس کی پیڈ پر سوار ہو گیا۔ بطتق نے تھوڑی سی دیر میں دریہ کو پار کر لیا اور مو موڑ کر کہنے لگی، خبر دار، وہ تمہارا مو چم لینا چاہیں گے لیکن ان کا ارادہ کٹنے کا ہوگا۔ حیدل نے سنیری بطتق کا شکریہ دا کیا۔


اور زمین پر پوچھ پڑا یہ جزیرہ ایسے ہی پولے والے پودوں سے بھرا ہوا تھا جن کو آج تک کسی نے نہیں دیکھا ہوگا جب حیدل نے ایک پول کے مو پر تمچا لگایا تو اس پول نے ایک ہلکی سی چیخ ماری اور باقی پول ہسنے لگے ان ہی پولوں میں سے ایک پول نے اپنا مو بڑھایا اور حیدل سے کہا ذرا اپنا مو قریب لے آئیے میں آپ کا مو چومنا چاہتا ہوں حیدل کو بطک کے لفظ یاد آ گئے


وہ وہاں سے چل پڑا۔ اس نے جب دوسرے پوڑوں پر نظر ڈالی تو ان کے پھولوں کو کان کی شکل کا پایا۔ ان میں سب سے زیادہ خوبصورت پھول وہ تھے جن کی شکل آنکھ جیسی تھی۔ حیدل کو یہ آنکھیں بھلی معلوم ہوئی۔ اس نے اپنے ساتھ لے جانے کے لئے ایک آنکھ توننے کا ارادہ کیا۔ لیکن ابھی ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ وہ آنکھ پھوڑ پھوڑ کر رونے لگی۔ حیدل کو اس پر رحم آ گیا اور


اب حیدل بالوں والے درخت کے قریب آ گیا تھا اس درخت کے چاروں طرف ساز پتنوں والے سنری پودھے دوری قطاروں میں کھڑے تھے ان پودھوں نے آپ بس میں مل کر اس درخت کے گرد ایک قسم کی بار کڑی کر رکھی تھی حیدل نے ان تمام سنری پودھوں کو قریب آ کر ان کو اکھاڑنے کی کوشش کی کیونکہ ان ہی پودھوں کو ترادینہ نے مانگا تھا جیسے ہی حیدل نے پودھے کی جڑ کو اکھاڑنے کیلئے پکڑا


پوڑے کی چوٹی نیچے جھکی اور حیدل کے مو پر ایک زوردار تماشا رسید کیا حیدل بدحواس ہو کر پیچھے گرا حیدل نے ایک زربل پھلی نکال کر کہا اے زربل پھلی تُنے پہلی میری بہت مدد کی ہے اب پھر تیری باری ہے اتنا سنتے ہی تمام پھول چلا اٹھے زربل پھلی ایک ٹکڑہ ہم کو بھی دے دو اتنے میں ایک بڑا پھول ہوچا ہوا اور پھولوں سے کہنے لگا خاموش


پھر حیدر سے مخاطب ہو کر بولا اِس ضربر فلی کا ٹکڑے کر کے ہم کو دے دو ہم تمہارے لئے سنیری پوڑوں کو ٹوٹ ڈالیں گے اس طرح تم والو والے درکتے قریب پہنچ جاؤں گے حیدر فلی کو ٹوٹ نہیں لگا اور پھولوں نے سنیری پوڑوں کی جڑوں کو کاتنا شروع کیا سنیری پوڑوں نے پھولوں کے تمچے لگانا شروع کیے لیکن کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اس طرح چھے سنیری پوڑ


حیدل نے اسی وقت پلی کے ڈکڑے پھولوں کے مو میں ڈال دیئے اور بالوں والے درکھ کے نیچے جا کھڑا ہوا۔ یہ بڑا ہی خوبصورت درکھ تھا۔ مختلف رنگوں کے بالوں نے اس کو گھیر رکھا تھا۔ درکھ کی جڑ کے قریب سنیری بال تھے۔ حیدل نے کچھ بالوں کا ہاسچ ہوا۔ ان سے زیادہ نرم بال اس نے کہیں نہ پائے تھے۔ اب وہ بیچ تلاش کرنے لگا۔ اس درکھ کے بیچ نیحاید مزگوڑی کے ساتھ بالوں


جڑ کے قریب ہی لگے ہوئے تھے۔ بڑی مہنت کے بعد اس نے اپنے خنجر کی نوک سے وہ بھیچ نکالے اور احتیاط سے تھیلے میں ڈال کر واپس چل پڑا۔ حیدل جب جانے لگا تو آنکھوں والے پھولوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور سو گئے۔ مو والے پھول بھی خاموش ہو گئے۔ اس نے ایک سنری پوڑا اٹھایا اور بطک کی طرف چل پڑا۔ جب وہ بطک پر سوار ہو کر دوسری کنارے پر پہنچا تو بطک کہنے لگی۔


اب تو مجھے زربل فلی دے دیجئے اور ہاں یاد رکھئے کہ جتنی جلدی ہو سکے اس جزیرے سے روانہ ہو جائیے۔ دیبار کا دروازہ ابھی تک کھلا تھا لیکن حیدل کے نکلتے ہی خوفنا کا آواز کے ساتھ بند ہو گیا۔ وہ اندھیرے میں بھاگتا رہا آخر روشنی میں آ گیا تھوڑی دیر کے بعد۔ اس نے بھیڑیا کو اپنی طرف آتے دیکھا، بھیڑیا خوشی سے چیکھ کر بولا سنری بودہ لے آئے۔


اب جلدی سے اسے مجھ کو مارنا شروع کرو حیدل پریشان ہوا کیا تم کو ماروں یہ نہیں ہو سکتا بھیڑیا زمین پر لیڈ کر نہائی تیز آواز میں بولا میں کہتی ہوں مجھ کو مارو حیدل نے اس کو سنری پودے سے آجتا سے مارا بھیڑیا چیکھ کر بولا اور زور سے مارو حیدل کا دل نہ مانا تب وہ بھیڑیا اس کی طرف پلٹا اور کہنے لگا


اگر تم نے مجھ کو اس پودے سے خوبزور سے نہ مارا تو میں تم کو کھا جاؤں گی۔ یہ سن کر حیدل نے اسے خوبزور دور سے مارنا شروع کر دیا یہاں تک کہ اس کے خون نکلایا حیدل تھکان کے مارے پودے کو زمین پر پھینکنے ہی والا تھا کہ بھڑیے کی خال زمین پر گر گئی اور اس کے سامنے ایک بہت خوبصورت عورت کھڑی نظر آئی۔ حیدل نے اتنی خوبصورت عورت کبھی نہ دیکھی تھی۔ ترادینا


میں ہی ترادینا ہوں، آؤ اب یہاں سے جلدی بھاگ نکلیں لیکن خطروں سے بجنے کے لیے پہلے مجھے ایک زربل پھلی دے دو حیدل اور ترادینا کنارے پر بندھی ہوئی کشتی پر سوار ہو کر وہاں سے روانہ ہو گئے ترادینا بھولی، تم کو ابھی چھے پھلیاں سبس پرندے کو دینے ہیں تب تمہارے پاس دو زربل پھلیاں رہ جائیں گی ان میں سے ایک میرے پاس ہے


لیکن اس پرندے کو اپنی فلی ہرگز نہ دینا اگر تمہارے پاس کوئی فلی نہ رہے تو وہ تم کو مار ڈالے گا تھوڑی دیر کے بعد ان کو سبس پرندہ ہواں میں اٹا نظر آیا اور وہ آکر کشتی پر بیٹھ گیا پرندہ نہائد غصے سے حیدل کو دیکھتے ہوئے بھولا تو تم نے بالوں علی درھت کے بیج حاصل کر لئے لائے میری ضربل فلیاں حیدل تھے لے میں سے فلیاں نکار کر بھولا لیجیے یہ رہیں


سبس پرندیا نے چھے پھلیاں اپنے پروں میں چھپا لیں لیکن وہ ابھی تک نہ اڑا۔ پرندہ بولا اب تمہارے پاس ایک پھلی اور ہے تم اس کا کیا کرو گے؟ حیدل بولا میں نے یہ زربل پھلی لوگوں کو دکھانے کے لئے رکھی ہے۔ پرندہ بولا لیکن اس سے تمہیں کیا فائدہ ہوگا؟ تم یہ بھی مجھے ہی دے دو۔ حیدل بولا نہیں جناب یہ نہیں ہو سکتا۔ پرندہ بولا میرے سات بچے ہیں اور تم نے مجھ کو صرف چھے پھلیاں دی ہیں۔


اگر یہ ایک ضربل فلی اور دے دوگے تو میرا چھوٹا بچہ بھی کھا لے گا پرندے کی بات سن کر حیدل کے دل میں رحم آ گیا وہ اپنی فلی بھی اس کو دینے لگا لیکن ترادینہ نے اس کو روک دیا اور پرندے سے بولی اس فلی کو مطھ مانگو یہ تم کو نہیں مل سکتی تم چھوٹ بولتے ہو میں اچھی طرح جانتی ہوں تمہارا ایک بھی بچہ نہیں ہے تم صرف اس فلی کو چھین لینے کی کوشش کر رہے ہو


پرندے کی کلی کھل گئی اور وہ ایک چیخ مار کر اُڑ گیا۔ اس کے بعد حیدل اور ترادینا نے اس کو کبھی نہ دیکھا۔ پورا ایک سال گزر چکا تھا لیکن ملکہ کے سر پر ابھی تاکے ایک بال بھی نہ اُگا تھا۔ لوگوں نے بالوں والے درخت کو ڈھون لے کی بہت کوشش کی۔ بازشاہ کے آدمیوں نے دنیا کا کونہ کونہ چھان مارا۔ بہت سے عجیب و گری پودے لائے لیکن کسی کو بھی بالوں والے درخت کا پتہ نہ مل سکا۔


ملکہ مہینوں بھیمار پڑھی رہی آخر اس نے باشا کو بلوائیا اور بولی اب میں اپنے آپ کو عمر بھر کے لیے کسی کمرے میں بند کر لوں گی اگر تم ایسا نہیں چاہتے ہو تو ملک کی تمام اورتوں کی بال کھاتے جائیں تاکہ وہ بھی میرے جیسی نظر آئیں بادشاہ حیران تھا کہ کیا کرے لیکن اس کو ملکہ سے بہت محبت تھی اس لئے تمام ملک میں باشا کا یہ حکم سنا دیا گیا تمام اورتوں کے بال کھاتے جانے کا


ایک دن مقرر کر دیا گیا اور ایک بڑے میدان میں ان کو جمع ہونے کا حکم ملا بادشاہ کے نوکر ابھی تک طرح طرح کے بودے لارہے تھے لیکن وہ سب بیکار ثابت ہوئے اور بالوں کے کٹے جانے کی تاریخ آہن پہنچی شہر میں جگہ جگہ ماتنی سیاہ چھنڈے دکھائی دینے لگے اور ہر عورت کا کالہ لباس بھی نظر آنے لگا اس دن صبح سووے رے ہی سے میدان میں عورتے جمع ہونے شروع ہو گئیں جب تمام میدان بھر گ


تو بادشاہ اور ملکہ تشریف لائے بادشاہ کے ایک غلام نے تمام اردوں کے ایک فیرستیار کی اور بالکاتنے کے لیے پہلا نام پکارا یہ نام ایک بہت خوبصور شہزادی کا تھا جس کا چیرہ غم کے مارے مرجعہ گیا تھا اور بالکندوں پر بکھرے ہوئے تھے شہزادی اپنا نام سن کر اٹھی اور مو چھوپا کر رونے لگی اب اس کے بالوں کی بچنے کی کوئی امید نہ تھی شاہی نائی شہزادی کے بالکاتنے ہی والا تھ


کہ ایک چیک سنای دی ٹھہرو اسی وقت سب کی نظریں آنے والے آدمی پر پڑیں حیدل بھیڑ کو چیرتا وہ اس جگہ کے قریب پہنچا حیدل دوبارہ چیک کر بولا میں نے بالوں والے درت کی بھیج حاصل کر لئے ہیں یہ سنتے ہی ملکہ کے مو سے خوشی کی چیکھ نکلی بازشاہ خوشی کے مارے ناشنے لگا اور شہزادی نے جس کے بال کاتے جانے والے تھے بھاگ کر حیدل کے قدموں کو چوم لیا


حیدل چلا کر بولا، ان ہورتوں کے بال کٹنے سے پہلے صرف آزمائش کر لو میں نے یہ بیج بالوں والے درک سے ٹوڑے ہیں ملکہ ذرا دیر سبر نہ کر سکی، وہ فورا اٹھڑی ہوئی ملکہ نے اپنے سر سے کالی ٹوپی اتاری اور اسے ایک طرف پھینک دیا اس موقع کو ہاں سے نہ جانے دو تھوڑے سے بیج جلدی سے میرے سر پر ڈال دو ہر طرف خاموشی چھا گئی حیدل نے اسی وقت اپنے تھیلے میں سے بیج نکال کر


ملکہ کے گنجے سر پر ڈال دئیے بیچ ڈلتے ہی پہلے تو چھوٹے چھوٹے بار لکلے پھر یہ بڑھنے لگے۔ ملکہ ابھی کچھ پوچھنے بھی نہ پائی تھی کہ بار لمبے ہو کر اس کے کاندھوں تک آ گئے اور بڑھتے بڑھتے پاں کو چھنے لگے۔ جب ملکہ نے یہ دیکھا تو خوشی کے آنسو رونا لگی بادشاہ اور لوگوں نے خوشی کے مارے اسمان سر پر اٹھا لئے اس رات تمام شہر میں روشنیاں کی گ


اور بازشاہ کے محل میں خوب ناش اور گانہ ہوا دوسرے دن بازشاہ ملکہ اور تمام لوگ حیدل اور ترادناہ کی شادی میں شاریق ہوئے ان کی شادی کے موقع پر بازشاہ نے اپنے وعدے کے مطابق حیدل کو ایک لاکھ روپے کی تھیلی نام میں دی حیدل نے ایک زربر فلی بازشاہ کو دی مسیبتوں سے بچنے کے لیے اس کو اپنے پاس رکھے اور دوسری فلی کو اپنے پاس احتیاط سے رکھا شاید یہی وجہ تھی کہ ان کی باقی تمام


ہسی خوشی بسر ہوئی

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow