ڈاکو کا عجیب قصہ

ڈاکو کا عجیب قصہ

Oct 20, 2024 - 16:28
 0  3
ڈاکو کا عجیب قصہ
ڈاکو کا عجیب قصہ


اسگر حسین ایک بہت بڑا صودہگر تھا وہ ہبیشہ دوسرے ملکوں کے سفر کرتا اور وہاں سے مال خرید کر اپنے ملک میں لاتا اور زیادہ داموں میں فروخت کر دیتا ایک مرتبہ اس نے عرب سے ایک بہت ہی مزبوط اور خوبصورت گھوڑی خریدی پہلے تو اس کا خیال تھا کہ وہ اس گھوڑی کو کسی رئیس کے ہاتھ فروخت کر دے گا لیکن جب وہ اپنے وطن پہنچا تو اس کی بیوی نے کہا یہ گھوڑی بہت ہی اچھی نسل کی ہے


سوداگر کو بیوی کا یہ مشورہ پسند آیا اور اس نے گھوڑی کو بیچنے کا خیال دل سے نکال دیا دو تین دن کے بعد جب وہ اس گھوڑی پر سوار ہو کر شہر میں نکلا تو ہر چھوٹے بڑے آدمی کی نگاہیں گھوڑی پر جمی اور جمکر رہ گئی امیر آدمی سوداگر سے واقف تھے ہی انہوں نے سوداگر سے درخواست کی اور پانچ ہزار روپے تک قیمت لگا دی لیکن سوداگر گھوڑی بیچنے پر راضی نہ ہوا اور اس نے یہ کہ


لوگوں نے جب دیکھا کہ وہ کسی صورت میں بھی گوڑی بیچنے پر راضی نہیں ہوتا تو انہوں نے بھی کہنا چھوڑ دیا۔ ایک روز سوداگر اپنی حویلی کے برامدے میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک نوجوان آیا اور جوک کر عدب سے اسلام کیا۔ سوداگر نے اسے سر سے پاؤں تک تیکھا اور دل میں کہا کہ اسی شریف خاندان سے معلوم ہوتا ہے۔ اور اس نے نوجوان کو اپنے قریب بٹھا کر خیریت دریافت کی، پھر خادم سے شربت مانگوا کر اس کی خاطر کی۔ اس کے


اب کہیئے آپ نے یہاں تشریف لانے کی کیسے تکلیف فرمایا؟ نوجوان بولا مجھے آپ کی گھوڑی پہت پسند ہے اگر آپ اسے میرے ہاتھ فروخت کر دیں تو آپ کی محربانی ہوگی صوداگر بولا مجھے افسوس ہے کہ میں یہ گھوڑی فروخت نہیں کر سکتا اسے میں اپنی سواری کے لیے ہی عرب سے لائے ہوں البتہ میں دوبارہ عرب گیا تو آپ کے لیے اسی نسل کی گھوڑی لے آوں گا نوجوان نے کہا میں نے سنہا ہے کہ آپ نے ایسے ہی


لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کس کس کو گھوڑی لا کر دیں گے۔ صوداجر مسکر آیا اور کہنے لگا میرا ارادہ ہے کہ میں ایک جہاز میں تیس چالس گھوڑیاں لے آؤں اور سب کی ضرورتیں پوری کر دوں نوجوان نے کہا آپ کا خیال نیک ہے لیکن یہ گھوڑی تو آپ مجھ ہی کو دے دیجئے۔ صوداجر کہکاں مار کر ہنسا اور کہنے لگا آپ نے بھی کمال کر دیا میں ارز کر رہا ہوں کہ میں یہ گھوڑی کسی قیمت پر بھی فروخت نہیں کروں گا


آخر نوجوان نے جب دیکھا کہ صوداجر گھوڑی دینے پر راضی ہی نہیں ہوتا تو وہ مجبور ہو کر چلا گیا۔ صوداجر ہر روز صبح سووے رے گھوڑی پر سوار ہو کر ہوا خوری کے لیے حویلی سے نکلتا اور کیلے کے سامنے والی سڑک سے گزر کر شہر سے چلا جاتا۔ ایک روز وہ اپنی عادت کے مطابق ہوا خوری کے لیے جا رہا تھا کہ راستے میں اسے ایک فقیر پڑھا ہوا ملا۔ اس نے گھوڑی کو روک کر ایک روپیہ فقیر


کامتی ہوئی آواز میں بولا بابا میں اس روپے کا کیا کروں گا میری کمر اور ٹانگوں میں کل سے اتنا درد ہے کہ نہ میں اٹھ سکتا ہوں اور نہ چل سکتا ہوں اگر مجھ بھوکے کو کھانے کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا دے دو تو اس روپے سے زیادہ اچھا ہے شوداگر کو اس پر بہت ترس آیا اور اس نے گھوڑے کو روک کر کہا تم میرے پیچھے بیٹھ جاؤ میں گھر لے جا کر تمہیں کھانا بھی کھلاؤں گا اور تم


بابا اگر اٹھنے کی طاقت ہوتی تو میں یہاں سے شہر نہ چلا جاتا گھوڑے پر سوار ہونے کی حمد کہاں سے لاوں؟ صدہگر کا دل اور بھی موم ہو گیا اور اس نے فکیر کی بگلوں میں ہاتھ ڈال کر بڑی مشکل سے اسے اٹھایا اور بڑی دکت سے گھوڑے کی پیٹ پر بٹھا دیا فکیر بولا بابا میں گھر تو نہیں جاؤں گا صدہگر نے کہا نہیں تم زرا سمل کر ہوشیاری سے بیٹھے رہو میں گھوڑے کی لگام پکڑ کر آ


فکیر نے کہا میں تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا صوداگر نے ابھی گھوڑی کی لگام پکڑی بھی نہ تھی کہ فکیر نے ایڈ لگائی اور چلتا بنا صوداگر حیران و پریشان کے کمزور اور بھوکے فکیر میں طاقت کیسے آ گئی وہ چلا نے لگا ذرا ٹھہر جا میری بات تو سنتا جا فکیر نے گھوڑی کو روکا چہرے سے مسنوی داڑی اور مونچے نوجھ کر نیچے پھینک دیں سر سے کپڑے کی میلی کچھیلی


اب مجھے پہچانا تم نے صدہگر نے گور سے دیکھا تو وہی نوجوان تھا جو اس کی حویلے میں گھوڑی کا صدہ کرنے آیا تھا اس نے کہا ہاں میں پہچان گیا نوجوان بولا اب کہو کیا کہنا چاہتے ہو صدہگر نے نحایت آجزی سے کہا تم نے مجھے جو دھوکا اور فریب دیا ہے اس کا حساب تو خدا کے ہاں کیامت کے دن ہوگا لیکن اس فریب کا تم کسی سے ذکر نہ کرنا ورنہ لوگ غریبوں


اپاہجوں اور ضرورت مندوں پر ترس کھانا چھوڑ دیں گے اور سمجھیں گے کہ تمہاری طرح وہ بھی انہیں دھوکا اور فریب دے رہے ہیں اس طرح غریب اور محتاج مدد سے محروم ہو جائیں گے اور ان کی مصیبتیں پہلے سے زیادہ بڑھ جائیں گی جس کا گناہ تمہارے سر پر ہوگا یہ کہہ کر سوداگر نے سلام کیا اور واپس شہر کی طرف جانے لگا لیکن وہ ابھی دو چار ہی قدم چلا تھا کہ نوجوان گھوڑی سے اترا اور سوداگر کو آو


آپ نے جو نصیحت فرمایا ہے وہ اس گھوڑی سے زیادہ کیمتی ہے یہ لیجیے۔ اس نے گھوڑی کی لگام صوداگر کے ہاتھ میں دے دی۔ صوداگر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا نوجوان تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے مسکوراتے ہوئے کہا ڈاکو منسور۔ صوداگر کو ایک جھرجری سی آئی اور اس کا جسم خوف سے پسینا پسینا ہو گیا۔ وہ ہی مت کر کے بولا تم ہو ڈاکو منسور جس نے ایک عرصے سے پولیس کی نید حرام کر رکھی ہے


مسکرائیا اور کہنے لگا جی حضور یہ نہ چیز ہی ڈاکو منسور ہے لیکن امیروں مہاجنوں اور غریبوں پر ظلم کرنے والوں کے لئے آپ جیسے نیک اور غریبوں پر ترز کھانے والوں کے لئے نہیں آئیے میں دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں اور یقین کرتا ہوں کہ آپ مجھے اپنا دوست سمجھیں گے شودہاگر بہت خوش ہوا اور اس نے آگے بڑھ کر ڈاکو منسور کو سینے سے لگا لیا اور کہا چلیئے ڈپہل کا کھانا میرے


اور اس روز سے دونوں ایک دوسرے کے گہرے اور سچے دوست بن گئے ڈاکو منسور اکثر صوداگر سے ملنے حویلے پر آتا اور گھنٹوں اس سے باتے کرتا ایک روز صوداگر نے پوچھا ڈوست یہ تو بتاؤ کہ تم ڈاکو کیوں بنے؟ منسور ہسا اور کہنے لگا ڈوست میں ایک زمیدار کا بیٹا ہوں میرا باپ اپنے علاقے کا سب سے بڑا زمیدار تھا اس نے میری تعلیم پر ہزاروں روپیہ خرچ کیا میں نے بھی


بی اکی ڈگری حاصل کی میرا ارادہ تھا کہ میں اپنی تعلیم جاری رکھوں گا لیکن یقا یق گھر سے میرا خرچ آنا بند ہو گیا اور میں مجبور ہو کر پرکست پر گاؤں پہنچا وہاں جا کر معلوم ہوا کہ میرے والد کا انتقال ہوئے سات بہنے گزر چکے ہیں لیکن اس خیال سے کہ مجھے صدمہ پہنچے گا اور میری تعلیم پر اثر پڑے گا میری والدہ نے مجھے انتقال کی خبر نہیں دی تھی میرے والد کا سارا کام میری چچہ


دو تین مہینے گزرنے کے بعد انہوں نے جائداد اور زمینوں کے کاغز اپنے قبضے میں کر لئے پھر موقع دیکھ کر سب کچھ اپنے نام میں کر لیا اور خود مالک بن کر بیٹھ گئے مجھے چچہ کی اس حرکت پر بے حد غصہ آیا اور میں نے اپنے والد کی چھوڑی ہوئی جائداد اور زمینیں واپس لینے کی کوشش کی لیکن مقدمے کے لیے روپے کی ضرورت تھی اور نہ وہ میرے پاس تھا اور نہ والدہ کے پاس ان کا زیور تھا سو وہ بھی چچہ کے قبضے میں تھا


میں نے اپنے والد کے امیر دوستوں سے درخواست کی اور ان سے روپیہ کرز مانگا لیکن انھوں نے مجھے دھتکار دیا ازیزوں اور رشتہ داروں نے مو پھیر لیا سچ ہے اندھرے میں سائیہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے صداجر، تھڑا سانس لیتے ہوئے بولا بڑی دردناک کہانی ہے تمہاری منسور نے کہا کیا ارز کرو میرے دوست برے دن آتے ہیں تو کہکر نہیں آتے میرے تو خاب و خیال میں بھی نہ تھا کہ مجھے اِن مسیب


میں تو سمجھ رہا تھا کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں نئے دھنگ اور نئے طریقوں سے پیداوار بڑھاؤں گا اور ملک و کونگ کی خدمت کروں گا لیکن ظالم چچا نے میرے ارادوں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا صود آگر بولا پھر کیا ہوا؟ منسور کہنے لگا میں بھی دکھ کے کھاتا پھر ہی رہا تھا کہ میری والدہ سخت بیمار پڑ گئیں چچا نے ان کے علاج پر توجہ نہ دی اور آخر مجبور ہو کر میں نے ایک بنیے سے


پچاس روپے سود پر کرز لیے اور والدہ کو علاج کے لیے شہر لے گیا یہاں میں اپنے ایک دوست نعیم کے مکان پر ٹھہرا اور والدہ کو ایک داکٹر کے پاس علاج کے لیے لے گیا وہ دوا دیتا رہا، انجیکشن لگاتا رہا لیکن ان کی طبیعت نہ سمل سکی اور پچاس روپے بھی خرچ ہو گئے پھر میں نے نعیم سے پچاس روپے لیے اور ان کا علاج اجاری رکھا لیکن مرض بڑھتا گیا جونجون دوا کی آخر ایک روز میں نے ڈاک


میں ایک گریب آدمی ہوں آپ ایک ایسی دوا تجویز کیجئے جو ان کی طبیعت ٹھیک ہو جائے ورنہ میں علاج کے لیے کہاں سے رقم لاؤں گا؟ داکٹر نے بے پروای سے جواب دیا رقم کا میں زمیدار نہیں ہوں اگر جیب خالی ہے تو کسی سرکاری شیفہ خانے میں لے جاؤ یہ جواب مجھے سخت ناغوار گزرا اور میں خموش ہو کر چلا گیا دوسرے دن والدہ کو ایک سرکاری شیفہ خانے میں داخل کر دیا


لیکن یہاں معلوم ہوا کہ جب تک ڈاکٹر صاحب کی جیو میں سو پچاس روپے نہ ڈالے جائیں وہ توجہ نہیں دیتے۔ میں نے ڈاکٹر کو اپنی دکھ بھری کہانی سنائی اور اسے التجا کی لیکن اس کم بخت نے ایک نا سنی اور یہ کہہ کر تال دیا۔ علاج کیا جا رہا ہے، زیادہ بات کرنے کی ضرورت نہیں، ڈاکٹروں کی بے پروای کے سبب ان کی حالت اور خراب ہو گئی۔ پھر میں شہر کے ایک بڑے ڈاکٹر کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ میں بی ا


لیکن بے روزگاری کے سبب میرے پاس روپے نہیں ہے آپ میری والدہ کا علاج کر دیجئے اور مجھے اپنے پاس ملازم رکھ لیجئے تنخواہ کے آدھے روپے مجھے دیتے رہیے اور آدھے والدہ کی دوائے وغیرہ کے کھاتے رہیے داکٹر نے جواب دیا یہ دوائہ خانہ ہے یتیم خانہ نہیں میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا میں سر جکھا کر واپس چلا گیا اور میری ماہ ان ظالم ڈاکٹروں کی ذرپرستی کی ب


ڈاکو منسور بن گیا ڈاکو منسور کے گروہ میں 27 آدمی تھے اور یہ سب لوگ گنے جنگل میں رہتے تھے انچی انچی پہاڑیوں میں زمین کھوڑ کر بڑے بڑے گار بنا رکھے تھے یہ گار صرف اٹھنے بیٹھنے اور ارام کرنے کے کام آتے تھے لوٹی ہوئی دولت جمع کرنے کے لیے انہی پہاڑیوں میں چھوٹے چھوٹے تہخانے تھے 27 آدمیوں میں سے 10-12 آدمی دن رات جنگل کے راستوں میں بھیس بدل کر بیٹھے رہتے


اور جنگل میں سے گزرنے کا سبب دریافت کرتے اگر اس نے معقول جواب نہ دیا تو وہ اسے پکڑ کر منسور کے سامنے لے جاتے اگر وہ اپنے جواب سے اسے مطمئن کر دیتا تو خیر ورنہ اسے کید کر دیا جاتا ایک روز گروہ کے آدمی درختوں پر بیٹھے ہوئے پہرہ دے رہے تھے کہ ایک ضعیف آدمی تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا جنگل میں داخل ہوا اور پہاڑیوں کی طرف چل دیا پہرے داروں میں سے ایک آدمی نے اسے روغ کا د


جنگل میں کسے تلاش کرتے پھی رہے ہو؟ اس نے بیرخی سے جواب دیا منصور سے ملاقات کرنے جا رہا ہوں پہردار نے کہا کیا کام ہے آپ کو منصور سے اور وہ کہاں ملے گا آپ کو ضعیف آدمی بولا تمہیں اس سے کیا گرز ہے یہیں کہیں مل جائے گا وہ مجھے پہردار کو اس پر شک ہو گیا اور وہ اسے پکڑ کر گار ملے گیا اور کہنے رہا بڑے نیا یہ ہیں ہمارے سردار کہو جو کچھ کہنا ہے


زائف آدمی نے پہلے تو بہت سی دعائیں دی پھر کہا بیٹا میں نے سنا ہے کہ تم گریبوں کے ہمدرد ہو اگر یہ سچ ہے تو مجھ گریب کی مدد کرو منسور نے پوچھا تمہیں کیا تقلیف ہے؟ کہنے لگا مجھ گریب کا ایک ہی بیٹا ہے اور اسی کے دم سے میری آنکھوں کی روشنی قائم ہے اتنا کہہ کر وہ رونا لگا منسور بولا روتے کیوں ہو بڑے میہ اس نے کہا بیٹا پر شوطم مہاجر نے اس پر چوری کا علظام


خدا کے لئے اسے چھڑاؤ منسور نے اس سے کچھ ضروری باتیں دریافت کرنے کے بعد اس سے وادہ کیا کہ وہ اس کے بیٹے محمود کو جلد ہی رہا کرا دے گا ضعیف آدمی اسے دعائیں دیتا ہوا چلا گیا منسور نے اسے دن مہاجن کے نام ایک خط بھیجا اور اس میں لکھا محمود بالکل بے کسور ہے اس نے تمہارے ہاں چوری نہیں کی اگر تم نے تین روز کے اندر اندر اسے رہا نہ کرایا تو منگل کی شام کو سات بجے تمہارے ہاتھ ڈاکا م


ستانے کی سزا مل جائے فقط ڈاکو منسور پر شوطم مہاجن خط پڑتے ہی گبرا گیا اور دورتا ہوا تحانے میں پہنچا پولیس سب انسپیکٹر نے خط کا مضمون پڑھ کر کہا لالا جی فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے آپ جا کر آرام کرے ہم سارا انتظام کر لیں گے پر شوطم نے 200 روپے سب انسپیکٹر کے ہاتھ پر رکھے اور کہا اگر آپ نے اس کم بخت ڈاکو کو گرفتار کر لیا تو میں 500 روپ

حضور کو دوں گا۔ سب انسپیکٹر فقیر چند نے تجربہ کار سپاہیوں کو ساتھ لے جا کر مہاجن کا مکان اور ارد گرد کے علاقے اور راستے دکھائے۔ پھر ہر سپاہی کو سمجھایا کہ اس کے چھپنے اور بیٹھنے کی جگہ کون سی ہوگی۔ اس کے بعد مہاجن سے کہا، اپنے مکان کی تمام کھرکیاں اور دروازے منگل کو بند رکھنا اور کسی غیر آدمی کو دروازے میں قدم نہ رکھنے دینا۔ پر شوطم مہاجن نے اس خیال سے کہ اس کے نوک


کوئی آدمی ڈاکو سے ملا ہوا نہ ہو اس نے سارے نوکروں کو دو روز پہلے ہی چھٹی دے دی مغل کی صبحی سے وکیر چند نے مہاجن کے مکان کے ارد گرد سپاہیوں کا جال پھیلا دیا ادھر مہاجن نے سونے کی سلیں اشرفیاں اور روپے تجوریوں میں سے نکال کے کات کے سندوکوں میں بھڑ دیئے اور اوپر سے کچھ گدڑ اور کچھ ردی رکھ دی تاکہ ڈاکووں کو شک نہ ہو اور اتمینان سے بیٹھ گیا شام کے ساڑ


کہ ایک فرلانگ کے فاصلے سے پولیس کی سیٹیوں کی آوازیں آنے لگی۔ فکیر چند نے اپنے ساتھیوں سے کہا، شاید پولیس ڈاکووں کا پیچھا کر رہی ہے، چلو ڈاکووں کو پکڑنے کی کوشش کریں۔ فکیر چند اپنے سپاہیوں کو لے کر بھاگا۔ تھوڑے فاصلے پر پہنچتے ہی اس کی نظر دورتے ہوئے سپاہیوں پر پڑھی جو سیٹیاں بجا رہے تھے اور ڈاکو ڈاکو کا شور مچا


اور اس نے تمام سپاہیوں کو اس طرف بھاگنے کا حکم دے دیا۔ پہلے سپاہی ایک طرف جا رہے تھے اور فکید چند کے سپاہی ان کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ اس طرح یہ سب سپاہی بہت دور نکل گئے۔ ادھر گھڑی نے سات بجائے، ادھر ڈاکو منسور اپنے دو ساتھیوں کے ہمرا گھوڑے پر سوار آیا اور میدان ساف دیکھ کر مہاجن کے سینے پر پسطول رکھ دیا اور کہا جلد بتاؤ کہا رکھا ہے؟


مہاجن نے بہت منت سماجت کی لیکن اسے رحم نہ آیا آخر مہاجن کو بتانا ہی پڑا کہ سندوکوں میں خزانہ رکھا ہوا ہے منصور کے دونوں ساتھیوں نے بڑے بڑے تھیلوں میں دولت بھر کر گوڑوں کی پیٹ پر رکھے اور جنگل کی طرف بھاگ گئے منصور نے جب دیکھا کہ اس کے ساتھی دور نکل گئے ہیں تو اس نے پستول جیب میں رکھا اور خود بھی گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگ گیا مہاجن سر پکڑے ہوئے بیٹھا تھا کہ تھوڑی


مہاجن اسے دیکھتے ہی رونے پیٹنے لگا فکیر چند نے کہا لالا جی کیوں روتے ہو کہنے لگا حضور ڈاکو سب کچھ لے گئے میں تو لٹ گیا مر گیا فکیر چند بولا ڈاکو کو تو ہم لوگ بھگا کر آ رہے ہیں تمہیں کس نے لوٹ لیا اسی وقت ایک بچہ آیا اور ایک پرچہ فکیر چند کے ہاتھ میں دے کر بھاگ گیا فکیر چند نے پڑھا اس میں لکھا تھا وہ سپاہی جو سیٹھیاں ب


انہوں نے پولیس کی وردیاں پہن رکھی تھی۔ آپ ان کے پیچھے پیچھے گئے اور میں نے لالا جی کو لوٹ لیا۔ فقط ڈاکو منسور۔ فکیر چند ہران ہو کر بولا، بدماش نے ہم سب کو بیوکوف بنا دیا۔ ہم سمجھتے تھے کہ شاید ڈاکووں کو راستے میں پولیس والے گھیر رہے ہیں اور وہ افسوس کرتا ہوا چلا گیا۔ جب اس واقعے کی خبر راجہ تک پہنچی تو اس نے کہا، جیل میں جو شخص سزاہ کات رہا ہے، اس کا �


لہٰذا اس پر پہلے سے زیادہ سختی کی جائے اور اس سے دریافت کیا جائے کہ ڈاکو اسے کیوں چھڑانا چاہتا ہے۔ غریب محمود کو کیا خبر تھی کہ ڈاکو اسے کیوں چھڑانا چاہتا ہے؟ اس نے جیل کے افسروں سے کہا، نا میں ڈاکو منسور سے واقف ہوں اور نا اس کی ہمدردی کا سبب جانتا ہوں۔ لیکن اس کی بات پر کسی نے اعتبار نہ کیا اور اسے سخت سے سخت سزا دی جانے لگی۔ اس بات کی خبر ڈاکو منسور کو ملی تو وہ ب


ایک حشیار آدمی سجاد کو بلا کر کتھ سنجھایا اور اس کے کپڑے بدلوا کر شہر روانہ کر دیا۔ سجاد نے شہر میں پہنچتے ہی راجہ کے ایک سپاہی کو خوب جی کھول کر مارا۔ اسے لوگوں نے پکر لیا اور کوتوال شہر کے پاس لے گئے جس نے سجاد کو تین مہینے کے لیے جیل بھیج دیا۔ جیل کی پہلی ہی رات تھی۔ سجاد نے ایک خاص قسم کے تار سے لوہے کی موٹی موٹی سلاکھوں کو کارٹ دیا۔ پھر موقع پاکر محمود کو ساتھ لیا


اور جیل سے نکل بھاگا۔ جیل کے دروازے پر جو سپاہی پہرہ دے رہے تھے انہوں نے دونوں کو بھاگتے دیکھا تو ان کا پیچھا کیا لیکن دونوں قریب کے قبرستان میں گھوز کر غائب ہو گئے اور پولیس والے ناکام ہو کر واپس لوٹ گئے سجاد اور محمود دوسرے دن چھپتے چھپاتے بڑی مشکل سے منسور کے اڈے پر پہنچے منسور نے محمود کو سارا واقعہ سنایا اور کہا پر شوطم مہاجن کے ہاں سے جو کچ


وہ سب تمہارا ہے لیکن اب اس شہر میں رہنا تمہارے لیے خطرے سے خالی نہیں اس لیے بہتر یہ ہے کہ تم کسی اور شہر کو روانہ ہو جاؤ محمود کو یہ سلاح پسند آئی تو منسور نے اس کا حلیہ تبدیل کیا مسنوی داری اور مونچے لگائیں پھر اس کے ضعیف باف کے پاس لے جا کر سارا حال بیان کیا اور اس شہر سے باہر روانہ کر دیا منسور نے اسے اتنی دولت لوٹ کر دی تھی کہ وہ دوسرے شہر میں جا کر تجارت کرنے لگا


اور بہت بڑا آدمی بن گیا بےکسور پر ظلم کرنے والا لٹ گیا اور مظلوم یا نجز پر ظلم کیا گیا قدہ نے اسے ہمیشہ کے لیے عیش و آرام دیا ڈاکو منسور ڈاکو ہوتے ہوئے بھی غریبوں کی مدد کرتا تھا اسی لئے غریبوں سے اچھا سمجھتے تھے ڈاکو منسور ایک روز سبا سویرے گار میں سے نکلا اور تہلتا ہوا جنگل میں بہت دور چلا گیا وہاں اس نے دیکھا کہ ایک نہر کے کنارے ایک


منصور نے اسے سلام کیا اور اس کے سامنے بیٹھ گیا سادھو نے کہا کیا چاہتا ہے منصور بولا میری خواہش ہے کہ آپ مجھے کوئی نیک مشورہ دیں سادھو نے کہا کیا میرے مشورے پر سچے دل سے عمل کرے گا منصور کہنے لگا بابا میں ایک مشہور ڈاکو ہوں اگر آپ نے یہ مشورہ دیا کہ میں ڈاکے مارنا چھوڑ دوں تو میں اس مشورے پر ہرگیز عمل نہیں کروں گا سادھو نے کہا تُو ڈاکو ہے ضرور �


لیکن اپنے گروہ کے تمام آدمیوں کو نکال دے جو کام کرنا ہے تنہا کر اور دوسرا مشورہ یہ ہے کہ ہمیشہ سچ بول منسور نے کہا کیا اس میں میرا بھلا ہوگا؟ سادھو بولا ضرور بھلا ہوگا یہ اس سادھو کی دعا ہے داکو منسور سلام کر کے واپس آیا اور اپنے گروہ کے تمام آدمیوں کو اکٹھا کر کے لوٹی ہوئی ساری دولت ان میں تقسیم کر دی اور سب کو یہ کہہ کر رخصد کر دیا کہ اب مجھے گروہ کی ضرورت نہیں


تم لوگوں کا جہاں جی چاہے جاؤ اور اپنا کام جو کام پسند ہو شوک سے کرو۔ لاکو منسور نے اس جنگل کو بھی چھوڑ دیا اور ایک دوسری پہاڑی علاقے میں اپنے لئے تھکانہ بنا لیا۔ ایک رات نقب لگانے کے عزار چھپائے ہوئے وہ شہر کے بازاروں اور گلی کوچوں میں پھیر رہا تھا کہ اجنبی نے جو سیاہ کمبل اڑے ہوئے تھا، اس کے کاندے پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا تم کون ہو؟ اس رات کے اندھرے میں اس طرح کیوں پھیر رہے ہو


منسور نے دل میں کہا مجھے سچ بولنا چاہیے چونکہ سادو نے کہا ہے کہ سچ بولنے سے میرا بھلا ہوگا پھر اس نے کہا میں ڈاکو منسور ہوں اور یہ سوچتا ہوا پھر رہا ہوں کہ کس امیر آدمی کے گھر میں نقب لگا کر مال و اسباب حاصل کروں اجنبی اس کی بات سن کر بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کسی امیر آدمی کو لوٹنے سے کیا فائدہ وہ گریب ہو جائے گا اگر مال و ذرہی چاہیے تو راجہ کے


لوٹ کر لے آؤ تو اس کے خزانے دوبارہ بھر جائیں گے 


منصور نے اس شرط کو منزور کر لیا اور اجنبی کے ساتھ مہل کی طرف چل دیا اجنبی نے راستے میں کوئی بات نہیں کی البتہ مہل کے قریب پہنچ کر اس نے کہا وہ سامنے والی دیوار بالکل اندھرے میں ہے اس میں نقب لگاؤ داکو منصور نے اعزار نکالے اور نقب لگا کر اتنی انٹے نکال لیں کہ اندھر داخن ہونے کے لیے کافی راستہ بن گیا پھر اجنبی نے کہا یہ راستہ ایک اندھرے کمرے میں نکلتا ہے اس میں سے گز


سیدھے راجہ کی خواب گھاں میں پہنچو گے وہاں سے جو چیز پسند آئے لے آؤ ڈاکو منسور نے کہا تم میرے ساتھ چلو گے یا یہیں پہرہ دوگے اس نے جواب دیا جیسی تمہاری مرضی منسور نے کہا میرا خیال ہے تم باہر پہرے پر کھڑے رہو اجنبی نے بھی اس بات کو پسند کیا اور وہ پہرہ دے نیلگا ڈاکو منسور اندھرے کمرے میں سے گزر کر راجہ کی خواب گھاں میں پہنچا وہاں


راجہ کا بیستر خالی تھا اس کے پلنگ کے سرحانے ایک خوبصورت تاک میں ہیرے جوہرات کی ایک سندوکچی رکھی ہوئی تھی منسور نے اسے کھول کر دیکھا تو اس میں تین بہت ہی کیمتی ہیرے رکھے ہوئے نظر آئے اس نے ہیرے نکال کر مٹھی میں دبا لیئے لیکن پھر اسے خیال آیا کہ تین ہیروں کو آپس میں تقسیم کرنا مشکل ہوگا اور اگر میں نے دو ہیرے خود لئے اور ایک اسے دیا تو مجھے جھوٹ بولنا پڑے


اس لئے بہتر یہ ہے کہ ایک ہیرا چھوڑ دوں یہ سوچ کر اس نے ایک ہیرا تو سندوقچی میں رکھ دیا اور دو ہیرے ہاتھ میں لے کر باہر نکلا اجنبی نے کہا سچ سچ بتاؤ کیا لے کر آئے ہو منسور نے مٹھی کھول کر دکھائی یہ دو ہیرے لائے ہوں اجنبی نے کہا اور کچھ نہیں ملا منسور بولا میں جھوٹ نہیں بولتا اگر یقین نہ ہو تو میری تلاشی لے سکتے ہو اجنبی نے مسکراتے ہوئے ایک ہیرا اٹھا ل


اور اس کے رہنے کا پتہ دریافت کیا۔ منسور نے کہا میرا پتہ معلوم نہ کیجئے البتہ اگر مجھ سے ملنا ہو تو اسگر حسین صوداغر کی حویلی پر آجانا یہ کہہ کر وہ اجنبی سے رکست ہوا اور خوشی خوشی اپنے نئے ٹھیکانے پر پہنچ گیا صبح سورج نکلنے سے پہلے ہی محل میں نکب لگنے کی خبر پھیل گئی راجہ اندر سین کو یہ خبر ملی تو وہ بہت ہیران ہوا اور اس نے سارے وزیروں کو بلا کر بہت ب


کوئی محکول انتظام نہیں کر رکھا تھا راجہ اندر سین نے بڑے وزیر سے کہا تم خود جا کر ہماری خواب گاہ میں دیکھو کہ وہاں سے کیا کیا سامان چوری کیا گیا ہے بڑے وزیر نے خواب گاہ کے سامان کی فہرست نکلوائی اور اندر جا کر ہر چیز کو فہرست سے ملایا سندوک چھی میں رکھے ہوئے صرف دو ہیرے کم تھے وزیر نے سوچا کہ اس تیسرے ہیرے کی بابت کسی کو کیا معلوم کہ چوری ہوا ہے یا نہیں اسے میں ہی


راجہ یقین کر لے گا کہ یہ تیسرا ہیرہ بھی چوری ہو گیا ہوگا۔ پھر وہ مسکرائیا اور دل میں کہنے لگا یہ چور بھی اجب چور تھا۔ جب دو ہیرے چورائے تھے تیسرا بھی چورا لیتا۔ خیر اب یہ ہیرہ میرے کام آئے گا۔ یہ سوچ کر اس نے وہ ہیرہ اپنی پگڑی میں چھپا لیا اور جا کر راجہ سے کہا۔ سندوکچی میں رکھے ہوئے تینوں ہیرے چوری ہو گئے ہیں۔ راجہ نے ہیرانی سے کہا تینوں ہیرے؟ وزیر بولا۔


یہ کہہ کر وزیر اٹھنے لگا تو راجہ نے کہا ابھی میرے پاس بیٹھے رہو میں دربار میں جاؤں گا تو میرے ساتھ چلنا وزیر پہلے تو گھبرایا لیکن پھر کچھ سوچ کر بیٹھ گیا راجہ تھوڑی دیر کے بعد دربار میں جانے کے لیے کھڑا ہوا اور چلتے ہوئے کوتوال شہر سے کچھ کہہ کر اسے رخصت کر دیا اور خود دربار میں چلا گیا وہاں بھی وزیر کو اپنے قریب ہی بٹھایا دربار برخاص ہونے سے تھو�


جس شخص کو حضور نے طلب کیا تھا وہ حاضر ہے راجہ بولا اسے ہمارے سامنے پیش کیا جائے کوتوال ڈاکو منسور کو اپنے ہمراہ دربار میں لے کر آیا تو راجہ نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور کہا تم کون شخص ہو؟ ڈاکو نے عدب سے سر جکا کر جواب دیا میں ڈاکو منسور ہوں راجہ بولا تم یہاں کس لئے آئے ہو؟ اس نے کہا مجھے کوتوال صاحب بلا کر لائے ہیں وجہ معلوم نہیں


راجہ نے کہا ہمارے محل میں کسی نے رات کے وقت نقب لگائی تھی اس کے مطلق تمہیں کچھ علم ہے؟ منسور نے سچ بولنے کا اید کیا تھا اس لئے اس نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسے جرم کی سخت سزا ملتی ہے جھوٹ نہیں بولا اور کہا اس نقب کے لئے مجھے سب معلوم ہے چونکہ یہ نقب میں نے ہی لگائی تھی دربار کے سب لوگ ڈاکو کی صاف گوئی پر بہت حیران ہوئے انہیں تاجوب تھا کہ ڈاکو ہوتے ہوئے


اس نے سچائی سے کام کیوں لیا؟ راجہ نے دریافت کیا تم نے نقب لگانے کے بعد کیا چرائے تھا؟ ڈاکو بولا ہیرے جوہرات کی انمول صندوقچی میں سے صرف دو ہیرے چرائے تھے بڑا وزیر جو راجہ کے قریب بیٹھا ہوا تھا آنکھیں نکالتے ہوئے بولا کیوں جھوٹ بولتا ہے؟ اس صندوقچی میں تین ہیرے تھے اور تم نے تینوں ہیرے چرائے ہیں ڈاکو منسور مسکرائیا اور کہنے لگا اگر مجھے


تو میں ڈاکو ہونے کا اقرار کیوں کرتا؟ اور نہ دو ہیرے چھرانے کا ذکر کرتا تیسرا ہیرہ سندوقچی ہی میں ہوگا وزیر نے چلاتے ہوئے کہا تم پھر جھوڑ پول رہے ہو سچ بولو ورنہ تمہاری خیر نہیں راجہ نے وزیر سے کہا تم خاموش رہو پھر وہ ڈاکو سے بولا تمہارے سات اور کتنے آدمی تھے ڈاکو نے عرض کی میرے سات سیاہ کمبل اوڑے ہوئے ایک اجنبی تھا اسی نے


دو ہیرے چرا کر ایک میں نے اس اجنبی کو دے دیا تھا اور دوسرا اپنے پاس رکھ لیا تھا راجہ نے کہا تم نے تیسرا ہیرہ کیوں چھوڑ دیا تھا منسور نے جواب دیا تین ہیروں کی تقسیم دو آدمیوں میں مشکل تھی اس لئے میں نے تیسرا ہیرہ چھوڑ دیا تھا وزیر نے کہا وہ اجنبی کون شخص ہے؟ داکو بولا میں اسے نہیں جانتا وہ راستے میں ملا تھا وزیر کہنے لگا تم داکو ہو کر ایک اجنبی کو ہیرہ کی


یہ سب جھوٹ ہے۔ راجہ بولا یہ سب سچ ہے۔ چونکہ وہ اجنبی میں خود ہوں۔ رات کو بھیس بدل کر شہر کی گلیوں میں میں پھیر رہا تھا۔ کہ یہ ڈاکو مجھے مل گیا اور میرے مشورے سے اس نے نقب لگائی۔ ایک ہیرہ اس نے مجھے دیا تھا اور دوسرا خود اپنے پاس رکھا تھا۔ بعد میں جب میں خواب گاہ میں گیا تو میں نے سندوکچی کھول کر اپنا اطمینان کر لیا تھا کہ تیسرا ہیرہ اس میں موجود ہے۔ ڈاکو اور وزی


اور راجہ کی صورت تکنے لگے۔ راجہ نے کتوال سے کہا تیسرے ہیرے کا چور یہ وزیر خود ہے۔ اس کی تلاشی لے کر دیکھو، ہیرہ اسی کے پاس سے نکلے گا۔ کتوال نے وزیر کی تلاشی لی تو ہیرہ اس کی پگڑی سے نکل آیا۔ وزیر کا چہرا پیلا پڑ گیا اور شرم سے اس کی نگاہیں جوک گئیں۔ راجہ بولا، تم میرے ملازم ہوتے ہوئے، مجھ سے جھوٹ بولتے ہو اور وہ ڈاکو ہونے کے باوجود جھوٹ نہیں بول


تم سے کہ ڈاکو بہتر ہے وزیر گردن جکائے خاموش کھڑا رہا پھر راجہ نے کہا میں تمہاری جگہ منسور کو وزیر بناتا ہوں اور تمہیں پان سال سخت مہنتوں مشکد کرنے کے لیے جیل بھیج دیتا ہوں وزیر راجہ کے قدموں میں گر پڑا اور آجزی کرتے ہوئے بولا میری گلطی ماف کر دیجئے مہر دربار میں میری رسوای ہوئی ہے یہی سزا میرے لیے بہت ہے راجہ نے کہا ہرگز نہیں ہمار


تم ہی ایک وہ وزیر ہو جو ہمیشہ کہتے رہے کہ مسلمان دھوکے باز اور فریبی ہوتے ہیں آج تم نے دیکھا کہ ایک مسلمان ڈاکو بھی کتنا سچا، ندر اور دلیر ہوتا ہے جاؤ اور اپنے کیے کی سزا بھکتو یہ کہہ کر راجہ سنگھاسن سے اٹھ گیا اور کوتوال وزیر کو پکڑ کر لے گیا منسور کو یاد آیا کہ سادو نے کہا تھا کہ سچ بولو گے تو تمہارا بھلا ہوگا کتنی سچی بات کہی تھی اس نے


وہ وزیر بنتے ہی گھوڑے پر سوار ہو کر جنگل میں گیا تاکہ سادھو کا شکریہ ادا کرے۔ سادھو نہر کے کنارے دھونی رمائے بیٹھا ہوا تھا کہ منسور نے جا کر سلام کیا اور کہا بابا میں نے آپ کی نصیت پر امل کیا اور ہمیشہ سچ بولتا رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج میں ڈاکو سے وزیر بن گیا ہوں۔ سادھو نے کہا بیٹا ایک سچ انسان کو ہزاروں بھرائیوں اور ایبوں سے محفوظ رکھتا ہے۔


ہرگز جوٹ نہ بولنا، منسور بولا نہیں بابا اب میں گبھی جوٹ نہیں بولوں گا سادو نے اسے دعائیں دے کر رخصت کیا اور وہ جنگل سے نکل کر اپنے دوست سوداگر کی حویلے پر گیا اس نے نیا اور شاہی لباس دیکھ کر کہا یہ آج تبدیلی کیسی؟ کہنے لگا اب میں ڈاکو نہیں ہوں وزیر بن گیا ہوں ہندو راجہ کا سب سے بڑا وزیر سوداگر بہت کشھ ہوا اور کہنے لگا


منسور بولا، ہرگز ہرگز نہیں ہوگا۔ راجہ تو بھیس بدل کر جاتا ہی تھا لیکن منسور بھی فرصت کے وقت میں باہر جاتا اور شہر کی گلی کوچوں میں پھر کر ریایا کا حال معلوم کرتا۔ ایک روز دپہر کے وقت منسور ایک تنگ گلی میں سے گزر رہا تھا کہ اسے ایک مکان کی ڈیوڑی میں دو لرکیوں بیٹھی ہوئی نظر آئیں جو گہوں ساف کر رہی تھی۔ ان کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، بالوں میں خاک اٹ رہی تھی اور


منسور ایک فکیر کے بھیس میں تھا جا کر لڑکیوں سے کہا بھوکے فکیر کو روٹی دو بھلا ہوگا لڑکیوں نے ایک دوسرے کی صورت دیکھی پھر فکیر سے کہا بیٹھ جاؤ بابا اور فکیر بیٹھ گیا بڑی لڑکی اٹھ کر اندر گئی اور روٹی کے سوکھے ٹکڑے اور تھوڑا سا گڑھ لے کر آئی فکیر نے کہا بی بی اسے کون کھائے گا اس نے جواب دیا بابا ہم گریب لوگ ہیں جب سے


ہم اور ہماری ماہ سارا دن مہنت کرتے ہیں تب کہیں شام کو آٹ دس آنے ملتے ہیں انہی پیسوں میں ہم تینوں گزارا کرتے ہیں تو غنیمت ہے فکیر بولا کیا اس گلی میں سبھی ایسے لوگ رہتے ہیں؟ لڑکیوں نے جواب دیا نہیں کھاتے پیتے لوگ بھی ہیں فکیر تھوڑی دیر کچھ سوچتا رہا پھر دعا دیتا ہوا چلا گیا اس نے راجہ اندر سین کو ان گریب لڑکیوں کا حال سنایا اور کہا ایسے لوگوں کی مدد


خزانے میں سے کچھ روپیہ علاگ رکھنا چاہیے۔ راجہ کو یہ تجویز پسند آئی اور اس نے غریبوں کی مدد کے لیے ایک لاکھ روپیہ سالانہ منظور کر لیا۔ منصور دوسرے دن شاہی لباس پہن کر ان لڑکیوں کے پاس گیا اور دو ہزار روپے دے کر بولا اب تم اپنی زندگی سکون اور ارام سے بسر کرو۔ لڑکیوں نے ہیران ہو کر پوچھا تم کون ہوں اور یہ روپے ہمیں کیوں دے رہے ہو؟ اسی وقت لڑکیوں کی بوڑ


منسور بولا، میں وہی فکیر ہوں جسے تم نے گڑھ اور سوکھی روٹی دی تھی۔ لڑکیوں نے کہا، لیکن تم تو فکیر نہیں ہو۔ اس نے جواب دیا، میں راجہ اندر سین کو وزیر ہوں۔ کل بھیس بدل کر آیا تھا جب مجھے تمہاری گریبی کا حال معلوم ہوا تو میں نے راجہ سے کہا اور اس نے تمہاری مدد کے لیے یہ 2000 روپے دیئے۔ لڑکیاں اور ان کی ماں بہت خوش ہوئی اور کہا خدا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔


منصور نے گھوڑے کو ایڈ لگائی اور تیزی سے مہل کی جانب روانہ ہو گیا منصور ہر روز بھیس بدل کر شہر میں جاتا تھا اور غریبوں کی مدد کرتا تھا اس طرح ایک سال کی مدت میں راجہ اندر سین کی ساری ریایاں خوشحال ہو گئی اور ہر شخص کام کر کے روزی کمانے لگا اور راجہ کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گیا منصور کا ظالم چچا جو اپنی بےیمانی سے جائیداد اور زمینوں پر قابض تھا اب بہت پریشان رہنے لگا


اس کا خیال تھا کہ منسور وزیر بن گیا ہے اور کچھ عرصے کے بعد وہ ضرور اس سے بدرہ لے گا۔ ایک روز جب اس نے سنا کہ وزیر منسور گاؤں اور دیہاتوں کے دورے پر آ رہا ہے تو وہ بہت خبر آیا اور سوچنے لگا کہ منسور اسے سخت سزا دے گا اور وہ ساری علاقے میں بدنام ہو جائے گا۔ یہ سوچنے کی بعد وہ اتنا پریشان ہوا کہ اس نے قوے میں پھاند کر خود کشی کر لی۔ منسور ایک ہفتے کے بعد دورے پر نکلا


تو اپنے گاؤں میں بھی گیا اس نے سب سے پہلے پچاس روپے بنیے کو دیئے پھر لوگوں سے اپنے چچا کا حال معلوم کیا تو انہوں نے کہا ایک ہفتہ گزرہ کہ اس نے آپ کے خوف سے خودکشی کر لی ہے منسور کو اس خبر سے بے ہت صدمہ پہنچا وہ لوگ جو اس کے برے وقت میں کام نہیں آئے تھے اب جک جک کر سلام کر رہے تھے منسور نے کہا آپ لوگوں کو چاہیے کہ بڑے آدمیوں کی خوشامت کرنے کی بجائے گریبوں سے ہمدردی


ان کے آڑے وقت میں کام آئے اور ان کا دل نہ دکھائیں اس نصیحت کو سن کر لوگ بہت شرمندہ ہوئے تم نے دیکھا ڈاکو ہوتے ہوئے بھی منسور صح بولنے لگا تو وہ ایک بڑا آدمی بن گیا اور اس سے نفرت کرنے والے بھی اس کی عزت کرنے لگے اس لئے تم بھی ہمیشہ صح بولو

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow