تمھارا حسین قیامت خیز ہے دلچسپ کہانی
تمھارا حسین قیامت خیز ہے دلچسپ کہانی
سڑک کے کنارے انتظار میں کھڑی تھی بار بار کلھائی پر گھڑی پر وقت دیکھ رہی تھی میرے ساتھی سویرا اور فائزا کھڑی تھی وہ دونوں اپس میں باتے کرنے میں مسروف تھی جبکہ میں بہت بے چین تھیں رکشے والے کا انتظار کر رہی تھی اسے میں نے اتنی بار سمجھایا ہے کہ شام ہونے سے پہلے ہی آیا کرے لیکن وہ تو بالکل وقت ہی پابندی نہیں کرتا دل ہی دل میں اسے برا بلا کہہ رہی تھی
جب رکشے کی آواز پر میں نے نکاح اٹھا کر دیکھا تو دور سڑک پر رکشہ آتے دکھائی دی رہا تھا فائزہ اور سویرا ابھی بھی رکشے کی طرف متوجہ ہو گئی تھی اس لئے میرے بالکل قریب آکر کھڑی ہو گئی رکشے میں بیٹھتی ہی سویرا نے انتہائی غصہ سے کہا حس پہ معمور آج تم پھر دیر سے آئے دیکھ لو ساری فکٹری خالی ہو چکی ہے اس وقت تو ہمیں گھر ہو جانا چاہیے تھا
ہمیشہ کے طرح رکھشے والے نے معاف کر دیا اور بحانے بنانے رکھا فائزہ اور سویرہ تو ایک ہی محلے سے آئی تھی جبکہ میرا محلہ کچھ دور تھا اور میں بالکل اکیلی ہو جاتی جس کی وجہ سے مجھے بہت در اور خوف محسوس ہوتا اس لئے میں ہمیشہ رکھشے والے سے کہہ دی کہ وہ وقت پر آیا کرے تاکہ اندھیرہ پھیلنے سے پہلے اپنے گھر پہنچایا کرے فائزہ اور سویرہ کے سٹاپ پر انہیں اتار دیا گیا تھا
میں نے رکھشہ ڈرائور سے کہا کہ وہ بہت تیزی سے چلائے تاکہ میں جل سے جل گھر پانچ سکوں ایک تو سارا دن فکٹری میں کام کرنے کی وجہ سے بہت تکاوٹ ہو جاتی اور پھر رکھشہ کا انتظار کرنا مجھے بہت بے ذار کرتا رکھشہ گلی کے کونے پر ہی رکھیا تھا میں جلدی سے نیچے اتری اور تیس کس کس قدم اٹھا کر اپنے گھر کی طرف بڑھنے لگی یہ گلی بہت اندھیری اور بے رونک تھی
گلی میں بے شمار بڑے بڑے درخت بھی لگے ہوئے تھے جن کے قریب سے گزرتے ہوئے اندھیرے میں بہت در لگتا میں بہت تیزی سے جل رہی تھی تاکہ جل سے جلد اپنے کھر پہنچ سکوں کھر سے دور ہی کچھ فاصلے پر اس درخت کے نیچے وہ آج بھی کھڑا اپنے وارا دوستو کے ساتھ تھا اس کے دوستو نے مجھے کبھی مخاطب نہیں کیا تھا اس نے مجھے دیکھ کر میرا راستہ روک لیا دلہے دل میں میں دعا کر رہی
میری دعا کوبول نہیں ہوئی اور وہ میرے راستے میں ہی کھڑا تھا اس کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے انتہائی غصہ سے کہا میں نے تم سے کتنی بار کہا ہے کہ میرا راستہ مطرقہ کرو لیکن تم اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے مجھے محلے والوں سے تمہارے شکایت کرنی پڑے گی نا جانے تم کون ہو، کہاں سے آئے ہو اور اس محلے میں ایسی حرکتے کر رہے ہو جو ناکابلے معافی ہیں ایک تو مجھے تمہارے سمجھ نہیں آتی ساری دن
لیکن جیسے میں تمہارے سامنے آتا ہوں تمہارے چہرے پر شدید غصے کے اثرہ دکھائی دینے لگتے ہیں میں نے تمہارا کیا بکاڑا ہے جو مجھے دیکھتے ہیں تمہیں غصہ آتا ہے میری بات کا جواب دینے کی وجہ اس نے شکوہ کیا نجانے وہ کتکو کیا سمجھتا تھا میری کسی بات کو سنجیدہ ہی نہ لیتا کل تم فیکٹری پہنچ آئے وہ تو شکر ہے کہ کسی نے تمہیں دیکھا نہیں ورنہ میرے لیے مشیبت بن جاتی خدا کے لیے
لیکن تم تو ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گئی ہو انتہائی گسیلے لہجے سے میں نے اسے ڈاڑتے ہوئے کہا میری بات کا جواب دینے کی وجہ وہ مسکور آنے لگا اور انتہائی چچھو رے انداز میں کہا میں تمہیں مانا نہیں کرتا چاہی جتنی مرضی غصہ کر لو مجھے تم پر غصہ نہیں آتا اس کی یہ بات سن کر مجھے غصہ آگیا اس لئے اپنے پاو پٹکھتے ہوئے آگے بڑھ گئی اب کی بار اس نے میرا راستہ بھی نہیں
جب میں کھر پانچی تو امی، سادیہ اور شازیہ میرا انتظار کر رہی تھی مجھے دیکھتے ہی امی نے ایک لمبا سانس لیتے ہوئے شکر اداک کیا ہر روز ہی تم دیر کر دیتی ہو میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ جب تک تم کھر نہ آو مجھے سکون نہیں آتا تھاگے ہوئے انداز میں صوفے پر بیٹھتے ہوئے میں نے انتہائی بے ذار لہجے سے کہا آج بہت تھک گئی ہوئے اس لئے آپ کی ڈانت بھی نہیں سن سکتی کیونکہ میرے
میرے سردد کا سن کر امی پریشان ہو گئی تیزی سے اٹھ کر میرے قریب آئی اور پشانی کو چھوکر دیکھتے ہوئے فکر مندی سے بولی کیا ہو گیا ہے؟ کیوں سر میں درد ہو رہا ہے؟ تمہیں ارام نہیں کرتی اسی لئے تمہیں سر میں درد محسوس ہو رہا ہے امی کی فکر مندانہ روائیے پر میں حیرت صنع کی طرف دیکھنے رکھی مجھے اپنے طرف متوجہ دیکھ کر انہوں نے نظریں چرالی جلدی سے سادیہ کو چائے بنانے کے لئے آواز
میری طرف دیکھتے ہوئے امی نے انتہائی محبت بھرے انداز سے کہا ابھی کچھ دیر میں کھانا بھی تیار ہو جائے گا نجانے دن کو فکٹری میں تم نے کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں تمہیں تو ہوش ہی نہیں ہوتی ہر وقت کام میں مسروف رہتی ہو کام سے فرصت ملے تو تب نہ میں کھانے کے بارے میں کچھ سوچوں لیکن آپ بھی جانتی ہے کہ کتنا کام ہوتا ہے ایک لمحے کی بھی فرصت نہیں ملتی
چائے پینے کے بعد میں کمرے میں آ گئی کپڑے چینج کرنے کے کچھی دیر بعد ارام کرنے کی گر سے آنکھیں بند کر لیں اور دیوار سے ٹیک لگا لیں تھوڑی دیر گزری تھی کہ سادیا کھانے کے لیے بلانے آگئی رات کو بستر پر لیٹے ہی نید آ گئی تھی لیکن شازیا بلکل میرے قریب آکر بیٹھ گئی میں نے اس کی طرف حیرت سے دیکھا لیکن مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ مجھے کوئی اہم بات بتانا چاہتی ہے کی
شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے پوچھا کچھ دیر خاموش رہی اور پھر سنجید کی سے کہا کچھ دیر بعد میں بھی اپنے بستر پر لیر جانگی ابھی کچھ کام کر رہی ہوں اس کے چہرے پر بےچینی کی اثرات دکھائی دی رہے تھے کیا تم مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہو؟ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جواب دینے کی وجہ ہے اس نے اقرار میں سر ہلائیا تم بولو میں سن رہی ہوں اٹھ کر بیٹھتے ہو
اس کے کہنے پر میں حیرت سے دیکھنے رکھی کیونکہ مجھے تو بالکل یقین نہیں آرہا تھا امی نے تو مجھ سے کوئی بات نہیں کی تھی اچھا وہ کب آئے اور کیوں آئے؟ اپنی حیرت پر کابو پاتے ہوئے میں نے شازیہ سے پوچھا آپ تو اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ خالہ اور عاصف بھائی کیا چاہتے ہیں؟ میں آپ کو کیا بتاؤں؟ شازیہ نے انتہائی دکھی لہجے سے کہا بےوزی سے ایک لمبا سانس خارج کرتے ہوئے میں نے شازیہ سے پوچھا
نا چاہتے ہوئے بھی میرے لہجے میں تنزا گیا تھا شازیہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے انتہائی فکر مندی سے کہا یہی تو میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں، اس بار امی کا جواب مختلف تھا اور مجھے یقین ہے جیسے میں امی کا جواب سن کر حیران پریشان ہوئی تھی بالکل آپ بھی ایسا ہی محسوس کریں گی اس سے پہلے کہ شازیہ مجھے امی کے جواب کے بارے میں بتاتی صادیہ بھی کمرے میں آ گئی اسے دیکھ کر شازیہ بالکل خاموش ہو گ
امی نے کیا جواب دیا تھا؟ اس کا تو مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا لیکن بہت دکھ ہو رہا تھا کہ امی نے مجھے خالہ اور آسف دونوں کی ہی آمت کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ آج سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ خالہ کے کھر کا کوئی بھی فرد ہمارے کھر آتا تو امی مجھے ضرور بتایا کرتی تھی۔ سادیہ نے کمرے کی لائٹ آف کر دی، میری آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے، قریب رکھے ہوئے فون کو اٹھا لیا۔ آسف کا
وہ بھی آن لائن تھا ابھی حیرت تو مجازف کے روائیے پر ہوئی تھی اس نے مجھے یہ بھی وطانا ضروری نہیں سمجھا کہ وہ آج ہمارے کھر آیا تھا سارا دن فیکٹری میں ہی کام کرتے گزر جاتا مجھے ابا کے مرنے کے بعد اسی بات کی فکر تھی کہ گھر کا نظام کیسے چلے گا ہمارا کوئی بھی نہیں تھا سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اپنی امہ اور بہنوں کو میں پریشان نہیں دیکھ سکتی تھی ابا فیکٹری میں ملازمت کرتے
اچانکی بیماری میں مبتلا ہوئے اور ایک مہینے بعد ہی چل بسے۔ وہ تو شکر تھا کہ ابا کی جگہ پر مجھے فکٹری میں ملازمت مل گئی تھی۔ ونہاں اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمیں کس حال میں زندہ رہنا پڑتا۔ میری تعلیم ابھی نہ مکمل تھی اس لئے کوئی اچھی نوکری ملنا تو ممکن ہی نہیں تھا۔ جب سے میں نے نوکری شروع کی تھی تو امی مجھے کھر کے کسی بھی کام میں شامل نہیں کرتی تھی۔ بچپن سے ہی میری مغنی خال
اب باقی مرنے کے بعد خالد چاہتی تھی کہ وہ مجھے بیاؤ کر کے اپنے گھر لے جائیں لیکن اس وقت خالد ایسے نہیں تھے کہ میں اپنی امہ یا بہنوں کو اکیلا چھوڑ سکتی مجھ پر پورے گھر کی زمہ داری آن پڑی تھی لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ یہ زمہ داری بوری کرتے کرتے میں بوڑھی ہو جاؤں گی پچھلے دس سال سے میں ملازمت کر رہی تھی اب میں بھی یہی چاہتی تھی کہ امی میری رکھستی کر دیں لیکن نجانے
مجھ سے چھوٹی بہن سادیا کی چار سال پہلے شادی ہوئی تھی لیکن وہ شادی زیادہ عرصہ نہیں چل سکی ایک سال بعد یہ اسے تراغ ہو گئی تھی اور وہ کھر واپس لوٹ آئی جبکہ میں نے اس کا کھر بسانے کی بہت کوشش کی لیکن شاید اس میں ہی ہمارے لیے کوئی بہتری ہو میں ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ سادیا سسرال والوں کے روائیوں سے تنگا کر اپنے شہر سے لائد کی اختیار کر لے لیکن ہر وار کی طرح مجھے اس معاملے میں بھی زی
صرف شاز یہ ہی کھر میں ہونے والی اہم باتوں کے بارے میں بتایا کرتی اس پر بھی اسے امی سے ڈانت پڑھ جایا کرتی لیکن وہ مجھے امیشہ کہتی کہ اب مجھے کوئی فیصلہ لے لینا چاہیئے احسان ہو کہ آصف مجھے چھوڑ دے اور کوئی اور فیصلہ کرے میں آصف کے رویے کی وجہ سے بہت پریشان تھی پچھلے ایک سال سے وہ مجھ سے دور ہو گیا تھا اس کے رویے کے بارے میں سوچتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسوں آگئے
میں آصف سے بہت محبت کرتی تھی لیکن مجھے ایسے لگتا تھا کہ اسے میری محبت کی کوئی پرواہ ہی نہیں آصف و امی کے بارے میں سوچتے ہوئے نجانے کب میری آنکھ لگ گئی سارا دن کام کرنے کی وجہ سے تکاورٹ ہو جاتی اسی لئے بستر ملتے ہی شکر ادا کر دی اور سو جایا کر دی صبح میری آنکھ کھلی تو سر بہت بھاری ہو رہا تھا نماز ادا کرنے کے بعد میں کمرے سے باہر نہیں نکلی میرا ناشطہ کرنے کا جی ہی نہیں چ
شازیہ مجھے بلانے کیلئے آئے کہ ناشطہ تیار ہے لیکن میں نے انکار کر دیا اور آج وقت سے پہلے تیار ہو کر خر سے باہر نکل آئی میرا دل بہت اداز تھا، کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا خر سے باہر نکل کر میں پیدل سڑک کے طرف چل دی صبح کا وقت تھا بچے سکول جا رہے تھے انہیں ہزتے مسکراتے اپنی دنیا میں مگن دیکھ کر خوش دیر کے لئے میں اپنا غم بھول گئی گلی کے کونے پر کھڑے ہو کر میں سکول
رکھشہ آ جانے پر خامشی سے اس میں سوار ہو گئی آج فکٹری میں بھی میرا کسی کام میں جھی نہیں لگ رہا تھا سر میں درد محسوس ہو رہا تھا سپروائزر جمیلا میڈم نے محسوس کر لیا تھا کہ میری صحت ٹھیک نہیں ہے اس نے مجھے کشتیر ارام کے لیے سٹور روم میں جا کر ارام کرنے کے لیے کہا میں خود بھی یہی چاہتی تھی کہ سب کی نظروں سے دور چلی جاؤں تنہا بیٹھوں کوئی میرے آسپاس نہ ہو
سٹور روم میں بہت سورا سمان پڑا تھا اور وہاں رکھی ہوئی گرسیوں میں سے ایک پر میں بیٹھ کے یہ رنکھے بند کر لی۔ میں نے دروازہ مکمل طور پر بند نہیں کیا تھا۔ اگر دروازہ بند ہو جاتا تو کمبر میں بہت زیادہ اندھیرا ہو جاتا اور مجھے اندھیرے سے بہت ڈیر لگتا۔ تنہائی ملتے ہی مجمعی کا روائیہ یاد آ گیا۔ وہ میری ماں تھی لیکن انہیں ایسا لگتا تھا کہ اگر میری شادی ہو گئی تو پھر انہیں کم
شازیہ نے صبح مجھے بتایا کہ اس بار انہوں نے خالہ اور عاصف سے کہا ہے کہ وہ سادیہ کا رشتہ لے لے کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ پہلے سادیہ اور شازیہ کا گھر بس جائے تو اس کے بعد ہی وہ اپنی بڑی بیٹی کے وارے میں سوچیں گی مجھے امی کی اس فیصلے پر بہت تکلیف ہو رہی تھی وہ اچھی طرح سے جانتی تھی کہ میں بچپن میں ہی عاصف سے منصوبوں اور اسے بہت پسند کرتی ہوں صرف میں ہی نہیں بلکہ عاصف بھی مجھ سے شادی کرنے کے خواہ
اور نہ چاہتے ہوئے بھی میرے آنسوں سے آنسوں بہنے لگے اندھیرے کمبرے میں میرے دل بہت کھبرا رہا تھا اس لئے فیکٹری کے خالی حصے میں آگئی یہاں پر بہت سارے درخت لگے ہوئے تھے درخت کے نیچے بنے ہوئے بنچ پر بیٹھنے کی وجہ میں ٹہر لے لگی میرے بے چین دل کو قرار ہی نہیں آرہا تھا ایسے لگ رہا تھا کہ دنیا ہی ختم ہو رہی ہے میں اپنے خیالوں میں مگن تھی جب اچانک ہی میں نے اپ
جو اکثر مجھے اپنا پیچھا کرتے ہوئے دکھائی دیتا یہاں تک کہ کئی بار میرا راستہ بھی روک چکا تھا دیکھنے میں تو وہ ایک خوبصورت اور سلچاوہ انسان دکھائی دیتا لیکن اس کی باتیں کھٹیا جذباتی ڈائلاج ہوتے تھے مجھے شدید غصہ آتا میں نے انتہائی فکر مندی سے اردگیت کا جائزہ لیا اگر کسی نے بھی اس عوارہ لڑکے کو دیکھ لیا تو جانے ہمارے بارے میں کیا کیا کیا سرائیا
وہ میری طرف دیکھ کر انتہائی محبت سے مزکر آ رہا تھا شدید گسے سے اس کی طرف دیکھ کر میں نے رخ پھیر لیا خود کوئی برا بلا کہنے لگی کہ فیکٹری سے باہر آنے کی کیا ضرورت تھی شکر تھا کہ اس وقت کوئی بھی مجھے دیکھ نہیں رہا تھا ہو سکتا کہ گیٹ کیپر نے مجھے دیکھی لیا ہو ذہن میں طرح طرح کے خیالات جنم لے رہے تھے چند قدم چل کر وہ بالکل میرے قریب آ کر کھڑا ہو گیا اس کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے انتہائ
کیا تم چاہتے ہو کہ میں یہ نوکری چھوڑ دوں؟ یہاں پر موجود سارے ورکرز کے سامنے مجھے شرمندہ ہونا پڑے؟ لوگ میرے کردار پر انگلیاں اٹھائیں؟ میری طرف سنجیدکی سے دیکھتے ہوئے اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے کچھ بھی کہنے سے روک دیا۔ پھر انتہائی نرم لہجے سے کہا تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں تمہارا دشمن ہو اور تمہیں نقصان پہنچانا چاہتا ہوں یا تمہیں بد کردار ثابت کرنا
میں نے انتائی فکرمندانہ نظروں سے ادر در دیکھا مجھے ایک ایک حچہ تھا کہ اگر کسی نے اس اجنبی لڑکے کو یہاں کھڑے دیکھ لیا تو مجھ سے ہی اس کے بارے میں پوچھیں گے جبکہ میں خود کچھ نہیں جانتی میں نے اس کی تمام باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تیز لہجے سے کہا تم یہاں سے چلے جاؤ میں تم سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی اور نہ ہی میں یہ چاہتی ہو کہ تم میرے بارے میں کچھ سوچو میرے بارے میں فکرمند ہونے کی
تیس تیس قدموں سے میں آگے پڑھنے لگی تو وہ میرے سامنے آقا کھڑا ہو گیا میرا راستہ روک لیا اور انتہائی غصہ سے کہا تمہیں میری کوئی بات سمجھ نہیں آتی میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ میں تمہاری بھلائی چاہتا ہوں جبکہ تم مجھے اپنا دشمن سمجھ رہی ہو وہ آج پہلی بار مجھے غصہ میں بات کر رہا تھا اکسر شام کے وقت ہمارے کھر کی گلی میں وہ کھڑا ہوتا لیکن کبھی بھی میرے ساتھ غصہ سے ب
تمہیں ایک بات میری بار بار سمجھ نہیں آتی؟ موچے تمہاری ہمدردی اور بھلائی کی کوئی ضرورت نہیں یہ کہا کر میں آگے بڑھ گئی اگر تم یہ سمجھ رہی ہو کہ آصف تمہارے ساتھ مخلص ہے تو یہ بالکل غلط ہے اگر میں یہ کہوں کہ تمہارے خاندان میں سے کوئی بھی تمہارے ساتھ مخلص نہیں تو یہ بالکل سچ ہوگا آصف نے تمہاری بہن پر بھی اپنی جھوٹی محبت کے ڈورے ڈال دیا ہے تمہیں بھی چھوڑنے والا نہیں ہے لیکن
میرے بڑھتے ہوئے قدم رکھ گئے تھے میں نے ہران ہوتے ہوئے اس کے طرف مڑھ کر دیکھا وہ میرے خاندان کو کیسے جانتا تھا مجھے اپنی طرف وہ توجہ دیکھ کر وہ مسکرانے لگا مسکراتے ہوئے کہا میں تم سب کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں وہ کون تھا میں اسے بالکل نہیں جانتی تھی جبکہ وہ میری فیملی کو بہت اچھی طرح سے جانتا تھا اچانک سے میرے ذہن میں خیال آیا کہ شاید یہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہے
کیونکہ میں اپنے قریبی تمام رشتہ داروں کو اچھی طرح سے جانتے تھے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی اس لئے خاموشی سے فیکٹری کے اندر واپس آ گئی اور اپنا کام کرنے لگی میں تو اس شخص کا نام تک نہیں جانتی تھی، صرف اسے بگڑا ہوا لڑکا سمجھتی تھی لیکن وہ تو میرے بارے میں مکمل معلومات رکھتا تھا میں نے سوچ لیا تھا کہ اسے اس بارے میں بات ضرور کروں گے اور یہ جاننے کی کوشش کروں گی کہ وہ کون ہے
فکٹری سے چھٹی ہوئی تو میں اپنی ساتھی ورکرز فائزہ اور سویرا کے ساتھ فکٹری کے گیٹ پر کھڑے ہو کر رکھشے کا انتظار کرنے لگی۔ فائزہ اور سویرا باتے کرنے میں مسروف تھی جب میرا دہان اُس سجنب اور عوارہ لڑکے کی باتوں کے طرف تھا۔ رکھشے پر میں نے شکر ادا کیا کہ رکھشے والا آج بھی دیر سے ہی آیا تھا۔ اس لئے اندھیرہ چاگیا تھا۔ گلی کے کونے پر جب رکھشے سے اُتری تو سنسان اور ویران گ
یہ نئی عبادی والا محلہ تھا اس لئے یہاں بہت سارے گھر غیراباہ تھے عبادی کم ہونے کی وجہ سے یہاں پر زیادہ ویرانی محسوس ہوتی اپنے گھر کے سامنے لگیوے درخت کے قریب پہنچی تو وہ ایک درخت کے قریب اکیلا کھڑا تھا اسے دیکھتے ہی میں تیزی سے اس کی طرف چل پڑی اور جلدی سے پوچھا تم کون ہو؟ اور میرے اور میرے فیملی کے بارے میں کیسے جانتے ہو؟ کیا تم ہمارے کوئی رشتہ دار ہو؟
میں نے ایک ہی سانس میں اس سے بہت سارے سوال پوچھ لیا ہے وہ میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگا اور مسکراتی ہوئے کہا تم تو بہت جلدی میں لگ رہی ہو لیکن میں ان سب سوالوں کے جواب ایک ہی وقت میں نہیں دے سکتا وہ بلکل سنجیدہ نہیں دکھائی دی رہا تھا میں نے اس کے طرف دیکھتے ہوئے انتہائی سنجیدگی سے کہا اگر تم ہمارے کوئی رشتہ دار ہو تو مجھے بتا دو میں تمہارے بارے میں سب جاننا جاہتی ہو میری بات سن
نہیں نہیں میں تمہارا کوئی رشتہ دار نہیں بلکہ دور پار کا رشتہ دار بھی نہیں ہو ابھی اس نے نام مکمل جواب ہی دیا تھا تمہارا نام کیا ہے؟ کم سے کم اپنا نام تو بتا دو میں امی سے تمہارے بارے میں پوچھوں ہو سکتے وہ تمہیں جانتی ہو میرا نام جمیلہ لیکن تمہاری امی بھی مجھے نہیں جانتی تم ان سے پوچھ لےنا اس نے انتہائی لاپروان دار سے جواب دیا میرے پاس وقت نہیں تھا کہ مجید گفتگو کرتی اس لئے تیزی سے قدم اٹھ
مجھے دیکھ کر ان کے چہرے پر اطمینان کے اثرات نمودار ہوئے۔ پچھ دیر امی کے پاس بیٹھی پھر کپڑے چینج کرنے کے لئے کمرے میں آ گئی۔ شازیہ نے مجھے پانی پلائے تھا لیکن سادیہ کو میں نے نہیں دیکھا تھا۔ وہ کچھن میں کام کر رہی تھی۔ کپڑے چینج کرنے کے بعد میں کمرے سے نکلی۔ تو سامنے ہی سادیہ کھڑی دکھائی دی۔ اس کے چہرے پر میکاب دیکھ کر میں نے جلی سے پوچھا کیا تم آ
امی نے جلدی سے جواب دیا آج اس کی بہت پرانی دوست کا فون آیا تھا تو میں یاد ہوگا جو پچھلی گلی میں رہتی تھی سادیہ کی شادی سے کچھ عرصے بعد اس کی بھی شادی ہو گئی تھی وہ اپنے والدین کے کھر آئے تھی تو اس نے فون کر کے سادیہ کو بھی بلا لیا سادیہ کی وجہ امی نے جواب دیا میں خاموشی سے بیٹھ گئی رات کو بستر پر لیرتے ہی مجھے اصف کے بارے میں سوچیں آنے لگی نجانے اسے کیا ہو گیا تھا
کبھی کبھی مجھے اس میں سارا قصور امی کا دکھائی دیتا جو کہ اس قدر خودگرز ہو چکی تھی کہ میرے بچپن کے رشتے کو ختم کرنا چاہتی تھی۔ صرف اس لئے کہ میں کمان کر ان کے ہاتھ پر لا کر رکھوں۔ کبھی کبھی تو میں شدت سے رونے لگتی۔ میرا اپنی زندگی پر بالکل حق نہیں تھا۔ میں ہمیشہ عالات کے سامنے مجبور ہو جاتی۔ کئی بار میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ مجھے یہ جاب چھوڑ دینی چاہیئے۔ لیکن پ
آنکھیں بند کر کے میں سونے کی کوشش کر رہی تھی جب اچانک مجھے کسی کے قدوم کی آواز سنائی دی میں نے جلدی سے آنکھیں کھول دی اور نیم اندھیرے کمرے میں آواز کی سمت دیکھنے لگی کمرے میں عجیب سی خشبو پھیلی تھی میں اس خشبو کو محسوس کرتے سوچنے لگی کہ یہ جانی پہچانی خشبو تھی لیکن اس وقت مجھے کچھ یاد نہیں آرہا تھا اپنی آنکھیں مکمل طور پر کھول کر دیکھنے کی کوشش کر رہی ت
میرے ذہن میں اکدم سے خیال آیا کہ شاید ہمارے کھر میں کوئی چور کھوز آیا ہے میں تیزی سے اٹھی اور شور مجا دیا چور چور آواز سن کر امی سادی اور شازیہ بھی جا گئی شازیہ نے جلدی سے کمبرے کی لائٹ آن کر دی کمبرے میں کوئی بھی نہیں تھا امی نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ تم نے کوئی خواب دیکھا اس لئے در گئی ہو کمبرہ تو مکمل طور پر بند ہے کوئی چور کیسے داخل ہو سکتا ہے امی تس
مجھے پورا یقین تھا کہ کمبر میں کوئی موجود ہے لیکن وہ ایک دم سے غائب کیسے ہو گیا اس کی سمجھ نہیں آرہی تھی امی کے تصلیدینے پر مجھے کچھ حوصلہ ہوا لیکن نجانے کیوں مجھے اس بات پر یقین نہیں آرہا تھا کہ جو میں نے دیکھا وہ غلط تھا حقیقت نہیں تھی لیکن میں نے اس وقت خاموش رہنای مناسب سمجھا اگلے روز فیکٹری جاتے ہوئے میری طبیت بے ذار ہو رہی تھی رات والا واقعہ بار بار میرے ذہن میں کھوم رہا تھا
شام کے مقابلے میں صبح کے وقت گلی میں کافی رونک ہوتی بچی اور بچی اپنے اپنے سکولوں کو جا رہے ہوتے ایسے لگتا کہ اس علاقے میں بھی انسان بستے ہیں ورنے تو اندھیرا پھیلتی ہر طرف کاموشی اور ویرانی چھا جاتی فکٹری میں کام کے دوران بار بار میرا ذہن بٹک جاتا لیکن میں اس نوکری کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی اس لئے اپنے کام پر توجہ دینے کی کوشش کرتی سارا دن تو کام میں مصروف رہی
لیکن اب چھٹی کے بعد فکٹری کے دروازے کے سامنے اکیرے کھڑے ہوتے مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا کیونکہ فائزہ اور سویرہ صبح اس جلدی چلی گئی تھی میں نے رکھشے والے کو تاکید کیتی کہ جلدی آ جانا لیکن وہ کم بخط تو نہ جانے کہاں چلا گیا تھا انتظار کرتے کرتے میں تھکنے لگی سڑک پر رکھشاتے دکھائی دیا تو میں نے شکر ادا کیا میں اسے بہت کچھ سنانا چاہتی تھی لیکن خاموش رہی
بلکہ اس کے ساتھ کوئی اور شخص بھی بیٹھا ہے مجھے رکھشے میں سے عجیب سی خشبو آ رہی تھی خشبو کو محسوس کرتے میں سوچنے لگی کیونکہ اس سے پہلے بھی یہ خشبو میں نے محسوس کی تھی یہ کون سی خشبو ہے کچھ دیر سوچنے کے بعد اچانک مجھے خیال آیا کہ یہ تو وہی ہے جو رات کو کمرے میں سے آ رہی تھی اندھیرا ہونے کی وجہ سے صحیح دکھائی نہیں دی رہا تھا لیکن میں بہت توجہ سے آگی بیٹھے شخص کو دیکھن
میں نے کوشش کی لیکن اس شخص کا چہرہ نہیں دیکھ سکی گلی کے کونے پر رکھا رکھیا باہر نکل کر میں اوپی پوری کوشش کر رہی تھی کہ اس شخص کا چہرہ دیکھوں جب اس نے مزکرہ کر میری طرف دیکھا تو میں چون گئی کیونکہ میرے سامنے جمیل بیٹھا تھا اس کے مزکرانے پر میں نے غصہ سے اس کی طرف دیکھا اور پاؤں پٹکھتے ہوئے کھر کی طرف بڑھنے لگی مجھے جمیل نمی اس شخص پر شدید غصہ آ رہا تھا نج
میں اپنی شادی کی متعلق سوچ بھی نہیں سکتی لیکن پھر بھی وہ میرے پیچھے پڑا رہتا تھا مجھے اس کی چچوری حرکتوں پر بہت غتصہ آتا لیکن اس کو کچھ کہیں نہیں سکتی تھی جب میں کھر میں داخل ہوئی تو کمرے میں سے باتوں کی آوازیں سنائی دی رہی تھی خلاف امامول آج گھر کا دروازہ بھی کھلا تھا امی کی کمرے میں داخل ہوئی تو خالہ اور آصف بھی سامنے بیٹھے دکھائے دیئے خالہ سے ملنے کے بعد میں نے آصف کی
وہ ٹیبل پر کھانا لگاری تھی میں نے سادیا کا میکپ اور چہرے پر مسکرہ حڑ دیکھ کر حرانی کا اظہار کیا مجھے اس بات پر بھی حیرت ہو رہی تھی کہ امی نے سادیا کو میکپ سے منا نہیں کیا تھا اس کے چہرے کی مسکرہ حڑ تو مجھے کچھ اوری وطا رہی تھی میرے ذہن میں جمیل کی باتیں گردش کر رہی تھی میں نے سادیا پر اپنی نظریں جمادی میں دیکھنا چاہتی تھی کہ جو کچھ جمیل نے کہا ہے وہ سچ ہے یا جھوٹ نج
وہ میری بہن تھیں، مجھے اس سے محبت تھی لیکن جب مجھے اس بات کا علم ہوا کہ وہ آصف کی طرف مطوحی ہوئی ہے امہ بھی یہی چاہتی ہے، تب سے مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا ہالا جان نے مجھے اپنے قریب بٹھایا، ادر ادر کی باتیں کرنے لگی لیکن میرا دہان ان کی باتوں کی طرف کم صادی اور آصف کی طرف زیادہ تھا شازیہ بھی کھانا کھانے کے برطن ٹیبل پر رکھ رہی تھی مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہ
اسے جواب دینے کی بجائے میں کمرے میں آگئی مجھے کھانے کی بھوک نہیں تھی اس لئے کمرے کی لائٹ آف کر کے لیٹ گئی نینت تو نہیں آرہی تھی لیکن آسو میری آنکھوں سے بہر رہے تھے مجھے سب کے رویے سے تکلیف ہوتی لیکن کبھی کسی نے میرے بارے میں جاننے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی روتے روتے نجانے کب میری آنکھ لگ گئی میری آنکھ کلی تو کمرے میں اندھیرا تھا سب سو رہے تھے میں دوب
لیکن میں نے دوبارہ سونے کی کوشش شروع کر دی، سردت بڑھتا جا رہا تھا، اٹھ کر بیٹھ گئی سامنے ہی امی پر نظر پڑی وہ گہری نین سوری تھی سادیہ اور شازیہ بھی اس وقت گہری نیند میں تھیں شاید یہ آدھی رات کا وقت تھا میں بہت دیر سوٹی رہی لیکن رونے کی وجہ سے میری صحت خراب رہی میں خاموشی سے کمرے سے باہر آئی اس وقت کچھ کھانے کو جھی نہیں چاہ رہا تھا لیکن بھوک محسوس ہوئی کچھن
ایسے لگ رہا تھا کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے میں گردن گھوما کر ادر ادر دیکھتی لیکن کوئی دکھائی نہیں دی رہا تھا وہم سمجھتے ہوئے میں ادر در چہل قدمی کر رہی تھی دل و دماغ دونوں ہی بے سکون تھے کسی پر سکون نہیں آرہا تھا جمیل کی باتیں زہن میں گردش کر رہی تھی جو کچھ میری آنکھوں نے مجھے دیکھا سچ محسوس ہونے لگا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میری چھوٹی بہن سادیہ میر
میں خیالوں میں کھوئی تھی جب میری نظر اجانک سامنے پڑی کرسی پر چونک گئی کیونکہ سہن میں رکھی کرسی پر مجھے جمیل بیٹھا دکھائی دیا۔ میں حیرت سے آنکھیں مل کر دیکھنے لگی ہے میرا ویہم تو نہیں، لیکن بالکل حقیقت تھی وہ سامنے بیٹھا میرے طرف دیکھ کر مسکر آ رہا تھا۔ خبرائی نظروں سے میں جلدی سے کمرے کو دیکھ رہی تھی جس میں امی سوری تھی، اگر وہ اس وقت کمرے سے باہر نکل آتی تھی جمی
تم یہاں کیسے آگئے اور کیا کر رہے ہو؟ میری آواز بہت آہستہ تھی میرے گُسے کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے انتہائی دھیمے سے مسکوراتے ہوئے جواب دیا تمہیں دیکھا بہت بے چہن لگ رہی تھی اس لئے آگیا تاکہ تمہیں تسلی دے سکوں تم خامہاں پریشان ہو رہی ہو سب معاملات ٹھیک ہو جائیں گے اس کا جواب سن کر میں نے سر پیٹ لیا تمہاری بہت مربانی مجھے کسی تسلی ہمدردی کی ضرورت نہیں یہاں
وہ ابھی کرسی پر بیٹھا تھا مجھے اسے دیکھ کر خوف محسوس ہو رہا تھا نجانے کون تھا کیسے ہمارے کھر میں داخل ہو گیا ہم تو کھر میں صرف اورتیں تھیں کمرے کا دروازہ میں نے مزبوطی سے بند کیا اور بستر پر آکر لیٹ گئی دعا کرنے لگی کہ رات خیر و افیت سے گزر جائے رات تو گزر گئی لیکن میں پوری رات بے چین رہی صبح معمول کے مطبق فیکٹری آگئی ابھی کام کرتے کچھ دیر گزری کے میں نے اپنے ا
وہ افیسر کے ساتھ ہنس کر باتے کر رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ دونوں پرانے دوست ہیں میں بار بار نگاہ اٹھا کر جمیل کی طرف دیکھتی وہ بالکل میری طرف متوجہ نہیں تھا کچھ دیر بعد وہ افیسر وہاں سے ہٹ گیا اب جمیل ورکرز کو کام کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا آئسطہ آئسطہ قدم اٹھاتے ہوئے وہ میرے قریب کھڑا گیا بے بسی سے میں نے آکھیں بند کر لی میں جانتی تھی کہ سب ورکرز ہماری طرف بہت توجہ سے
کشتہر جمیل میرے قریب کھڑا مجھے کام کرتے دیکھتا رہا پھر آگے بڑھا اس کے آگے بڑھ جانے پر میں نے لمبا سانس خارج کرتے ہوئے شکر ادا کیا دوبارہ سار رٹھا کر نہیں دیکھا کہ وہ کس طرف گیا کیا کر رہا ہے میں نے صرف کام پر توجہ دی میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا ایسے محسوس ہوا کہ جمیل کی وجہ سے میں کسی کو مو دکھانے کے قابل نہیں روں گی یہ میرے پیچھے ہاتھ دو کر پڑ گیا تھا
میرے ساتھی ورکرس کھانا کھانے کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ باتے کرنے میں مصروف تھی مجھے کسی کی کوئی بات اچھی نہیں لگی میرا ذہن بہت الچا ہوا تھا ایک طرف آسف تھا تا دوسری طرف میری اپنی ماہ اور بہنے تھیں یقین نہیں آتا تھا کہ میرے ساتھ ایسا بھی کیا جا سکتا ہے کھانے کے بعد میں بہت دیر تک خیرات میں کھوئی رہی فائزہ نے میرا کندھا ٹھپ ٹپا تے ہوئے کہا اٹھ بھی جاؤ کب تک یوں ہ
ہاتھ دھو کر جیسے ہی پلٹی تو سامنے کھڑے جمیل کو دیکھ کر ایک بار پرس میں زیادہ خبرہ گئی نجانے کیوں وہ ہر وقت میرے آسپاس رہنے لگا خبرائی نظروں سے ادھر ادھر دیکھا میرے کچھ کہنے سے پہلی وہ جلدی سے بور اٹھا میں کب سے تمہیں دیکھ رہا ہوں اپنے ہی خیالوں میں کھوئی ہو ایسے میں جو کام کر رہی ہو وہ غلط ہو گئے تو کھڑے کھڑے تمہیں نوکری سے نکال دیا جائے گا وہ ان
میں نہیں چاہتی تھی کہ میرا تماشہ بنے یا کوئی میرے بارے میں الٹی سیدھی بات کرے شام کو کھر وابسی پر و درخت کے نیچے کھڑا تھا اسے دیکھ کر میں تیزی سے آگے بڑھی میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اس نے میرا راست روک لیا انتہائی چچھورے انداز سے کہا میں کب سے تمہارے انتظار کر رہا ہوں تم ہو کے مجھے نظر انداز کی جا رہی ہو کچھ تو میرا حساس کر لیا کرو میں نے انتہائی غصہ سے اس کے طرف دیکھتے ہو
خود دا کے لیے میرا پیچھا چھوڑو! میرے اسی لئے لہجے کو نظر انداز کرتے وہ مسکرہ آ رہا تھا. اس کی یہ مسکرہ ہیٹ مجھے بہت بری لگی اس لئے پاون پٹکتے ہوئے آگے بڑھ گئی. وہ کہکا لگا کر ہنسا. آج میں نے امی کو نظر انداز کر دیا اور صیدہ کمرے میں آ گئی. اچانک میں نے ایک فیصلہ کر لیا. میں زیادہ دیر تا خود کو کسی مسئلے میں الچائے رکھنے کی عادی نہیں تھی اس لئے میں نے س
اگر سب یہی چاہتے ہیں کہ سادی اور عصف کی شادی ہو جائے تو میں درمیان سے ہٹ جاؤں گی یہ خیال اجانک میرے ذہن میں آیا شاید میں اس عزید بھری زندگی سے تنگ آگئی تھی اس لئے سخت قدم اٹھانے کا فیصلہ کر لیا میں نے اسی وقت عصف کو کال ملالی تھی حیرت سے پوچھنے لگی کہ میں نے اسے کیسے یاد کر لیا امی اس وقت سنجیدہ تھی اس لئے جلدی سے پوچھا کہ تم ابھی مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو میرا سوال سن کر کچ
اس کی خاموشی کا جواب سمجھنے میں دیر نہیں لگی، اس سے پہلے کہ میں لائن کارتی وہ جلدی سے بولا میں نے اس رشتے سے انکار نہیں کی اور نہ ہی کرنا چاہتا ہوں تو میری بچپن کی محبت ہو لیکن اپنے کھروالوں سے پوچھ لوگوں کیا چاہتے ہیں میں نے اس کا جواب سن لیا تھا کارتی اور کمرے سے باہر آگئی امی شازیہ سادیہ کھانا کھا رہتی مجھے دیکھتے ہی مزکوراتے ہوئے کہا امی نے میں ہے کھانے پر تمہارا انتظار کر
میں امی کے سامنے بیٹھئی، ان کی چہرے کی طرف گور سے دیکھتے ہوئے میں نے دو ٹوک لہجے سے کہا عاصف جلد شادی کرنا چاہتا ہے، اب مجھے بتا دیں آپ کیا چاہتی ہیں کیونکہ میں بھی یہی چاہتی ہو کہ ایسی ہفتے میں ہماری شادی ہو جائے انتظار کو بہت عرصا گزر گیا میں مزید عاصف کو انتظار نہیں کروانا چاہتی امی کا ہاتھ کھانا کھاتے رکھیا سادیہ اور شادیہ بھی میری طرف حیرت سے دیکھنے لگی
کچھ تیر بعد وہ حیرت پر قابو پاتے ہوئے بولی میں جانتی ہو کہ تمہاری عمر بڑھ رہی ہے آسف و تمہاری خالہ کا اسرار بھی بڑھ رہا ہے کہ جل سے جل دونوں کی شادی کر دی جائے لیکن خالہ بیمار رہتی ہے تمہاری انہیں کھر میں بہو کی ضرورت ہے جو ان کی مدد کر سکے ان کا خیال رکھے امی کی بات کرتے ہوئے میں نے تیزی سے کہا کہ میں یہ سب جانتی ہوں آپ سے یہ اسی لئے پوچھ رہی ہو کہ آپ کیا چاہتی ہیں میرا سوال سنکر وہ خام
میں یہ چاہتیوں کہ میری اولاد ہمیشہ خوش رہے اس لئے کبھی کبار ہمیں کچھ فیصلے اثر کرنے پڑھتے ہیں جو بظاہر ہمیں پسند نہیں آتے۔ یہ کہہ کر امی خاموش ہو گئی اور میری طرف امید بھری نظروں سے دیکھنے لگی آپ کھل کر بات کریں آپ نے کیا فیصلہ کی ہے؟ امی کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے سنجیت کی سے کہا امی نے لمبہ سانس خارج کیا اور انتہائی دکھی لحظے سے کہا کہ تمہارے باپ کے مرنے کے بعد زندگی ا
امی ایک بار پھر مشکیر حالات کا تسکرہ لیے بیٹھی اس لئے میں نے انہیں روکتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو فیصلہ کیا اس بارے میں بتائیں یہ سب باتیں میں جانتی ہو اسی طرف آ رہی ہوں باب کے مرنے کے بعد تمہیں فکٹری میں نوکری مل گئی اور اس کھر کا خرچ تم نے اٹھا لیا تمہاری شادی کر دوں تو دونوں چھوٹی بہنوں کا کیا ہوگا میرا کیا ہوگا میرے نصیب میں جو روکی سوکی ہے مل جائے گی اپنے سے زیادہ مجھے تم
آپ یہ چاہتی ہے کہ میں تب تک شادی نہ کروں جب تک میرے دونوں چھوٹی بہنوں کی شادی نہ ہو جائے امی جو کچھ زبان سے نہیں کہہ سکتی تھی میں نے کہا کہ اُن کی مشکلہ سان کی یہ سنتے ہیں انہوں نے مسکرہا کر سر ہی رہ دیا میں جانتی تھی کہ تم بھی میری طرح سوچتی ہوگی امی نے تاریفی لحجے سے کہا میں نے تیزی سے کہا تو پھر آپ خالہ اور عصیب کو بتا دیں کہ ابھی چند سال تک ہماری شادی نہیں ہو سکتی اگر تم لوگ انتظار کرسکت
انہوں نے رشتے سے انکار نہیں کرتے بلکہ میں تو یہ سوچتی ہو کہ تمہاری خالہ بیمارے انہیں کھر میں مدد کی ضرورت تو ہر وقت رہتی ہے کیوں نہ آسپ اور سادیہ کی شادی کر دو یہ سننے کے بعد مجھے زمین آسمان گھومتے محسوس ہوئے کچھ تیر خاموش رہنے کے بعد میں نے امی سے پوچھا آسپ بھی سادیہ سے شادی کرنے کے لئے راضی ہے اس پر امی نے انکار میں سر ہلا دیا نہیں نہیں وہ تو بالکل اس رشتے پر راضی نہیں تمہیں اسے راضی کر
جمیل کی ساری باتیں ست ثابت ہوئی میں سوچ بھی نہیں سکتی تھے کہ امی کبھی میرے ساتھ ایسا کرسکتی ہیں صبح سے شام تک فکٹری میں کام کرنا اسان نہیں تھا لیکن میں نے ابا کے مرنے کے بعد کبھی بھی امی اور بہنوں کو تنگی نہیں آنے دی میری محنت کا جو سلاہ مجھے مل رہا تھا وہ بہت تکلیف تھا میں نے اعصف کو ایک میسیج سنڈ کیا جس میں امی کے خیرات کے بارے میں وطا دیا اگلی روز جب میں فکٹری پانجی تو کچھ دیر بعد
اس بات تر راضی نہیں تھا کہ صادیہ کے ساتھ شادی کرے اور مجھ سے ناراض ہوا کہ میں ایسا سوچ بھی کسی سکتی ہوں آنسو پر کابو پاتھے میں میں نے اسے سب بتایا کہ میری امی کیا چاہتی ہے آسف نے مجھ سے وادہ کیا کہ وہ مجھ سے ہی شادی کرے گا چاہے کچھ بھی ہو دوپہر کو جب میں اور آسف گھر میں داخل ہوئے تو امی ہم دونوں کو دیکھ کر اعران ہو گئی وہاں پر آسف نے امی کے سامنے انتہائی کرخط لچے سے کہا کہ وہ صادیہ سے
مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ میری ماہ ہے۔ آسف تو اپنا فیصلہ سنا کر چلا گیا۔ امی بہت دیر مجھے ڈارتی سمجھاتی رہی کہ مجھے فیصلہ تبدیل کر لینا چاہیئے۔ میں خموشی سے ان کی باتیں سنتی رہی کوئی جواب نہیں دیا۔ اگلی روز فکٹری جاتے پتہ چلا کہ آج 5,000 سویرہ دونوں چھٹی پر ہیں۔ اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا تھا کہ وہ دونوں ایک ساتھ چھٹی کر لیں۔ میں نے رکھشے والے کو تاکی
میں اس کی عادت سے بہت تنگ تھی اور سوچ رہی تھی کہ رکھشے بارے کو جواب دے دینا چاہیے کیونکہ یہ بلکل بھی وقت کا وابند نہیں رکھشا آیا تو میں جلدی سے بیٹھی کچھ سفر تیگ کیا پھر بعد میں میں نے دیکھا کہ رکھشا ڈرائیور تبدیل تھا جہاں میر رکھشا چلا رہا تھا اسے دیکھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی جس پر وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا کہ میں تمہیں لے نئے آئے اور اپنے ساتھ لے جانگا اس کی بات
جب سے اس فکٹری میں کام کر رہی ہو میں بھی تمہارے ساتھ ہوں میں یہ ہی چاہتا تھا کہ جب تک تمہارے سر پر زمانداری کا بوج ہے تم نوکری کرتی رہو لیکن اب تم نے آسف سے شادی کا فیصلہ کر لیا تو میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دوں گا کیونکہ میں تو خود تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں اس کی بات سن کر مجھے غصہ آیا میں سوچ بھی نہیں سکتے تھی کہ ایسے شوکھے اور عوارہ لڑکے کے ساتھ کبھی شادی کروں گی اس لئے میں نے انتہائی غصہ سے کہا کہ
اس نے رکھشاں روک لیا اور میری طرف رخ مورتے ہوئے کہا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ میں تمہیں چھوڑوں گا کیونکہ میں تو برسو سے تمہارے ساتھ ہوں اپنی دنیا اپنا قبیلہ چھوڑ کر تمہارے افازت کر رہا ہوں تمہیں اس بات کا بالکل احساس نہیں دوکھی لحجے سے بولا مجھے کسی بات کا احساس نہیں کیونکہ میں نے تو تمہیں نہیں کہا تھا کہ میری افازت کرو یا میرے ساتھ رہو کچھ دیر تک میری طرف خاموشی سے دیکھتا رہا اور
اسی وقت تمہیں اپنی دنیا میں لے کر جوں گا اور پھر کبھی میں اور تم الگ نہیں ہوں گے اس کی باتیں بہت عجیب تھیں میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تمہارے دنیا کونسی ہے جس میں تم نے مجھے لے کر جانا ہے؟ وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر انتہائی سنجیدہ لہجے سے کہا میں انسان نہیں بلکہ جن ذات ہوں تمہیں اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتا ہوں اس کا جواب سن کر تو غوف کے مارے میرے رانگٹھے کھڑے ہو گئے
کیوں کہ وہ ہمیشہ سے میرے سامنے انسانی روپ میں ہی آتا تھا میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے انتہائی بیبسی سے کہا تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ میں تو بچبن سے ہی آصف سے منصوب ہوں اور میں اسے بہت پسند کرتی ہوں اگر تم مجھے اپنے ساتھ لے کر چلے بھی جاؤگے تو بھی کبھی میری محبت حاصل نہیں کر سکو گے اگر تمہیں مجھ سے زرا سے بھی محبت ہے تو میرا پیچھا چھوڑ دو
اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے میں نے کہا تھا رانے کی وجہ سے میری آنکھوں کے سامنے اندھیر آگیا تھا کش دیر بعد جب میں نے اپنے آسوں پونچے تو میں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ میں بلکل اپنے کھر کے سامنے ہی کھڑی تھی مجھے بہت زیادہ حیرت ہوئی تھی یہ بھی یاد آیا کہ میں جب کھر کے اندر داخل ہوئی تو سامنے ہی آصف اور خارہ جان موجود تھے
امی تو ان دونوں کے ساتھ بہت زیادہ غصہ سے کچھ بات کر رہی تھی پھر آصف نے مجھے دیکھتے ہی میرے طرف دیکھتے ہوئے انتہائی غصہ کے ساتھ کہا تم ہے ابھی اور اسی وقت فیصلہ کرنا ہوگا کیا تم مجھ سے نکاح کرنے کے لیے تیار ہو اگر تم مجھ سے نکاح کرنے کے لیے تیار نہیں ہو تو میں ابھی اسی وقت اس رشتے کو ختم کر کے یہاں سے واپس جلا جاؤں گا
جب امید بھری نظروں سے میری طرف دیکھتی جا رہی تھی میں نے اپنی نظریں جھکا لیں اور اکرار میں اپنا سر ہلا دیا تھا اس کے بعد امی نے انتہائی نفرت اور غسے بھرے لہجے سے مجھے کہا اگر تم میرا فیصلہ نہیں مان سکتی تو ابھی کیا بھی ابھی اسی وقت ان کے ساتھ چلی جاؤ مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے
اس کے بعد خالہ مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر میں لے کر آئی اور اگلی صبح ہوتے ہی میرا اور آصف کا نکاح ہو گیا تھا میں تو ابھی اسی فکٹری میں نوکری کر رہی ہوں میں ابھی اپنی شادی کے بعد اپنی ماہ اور اپنی چھوٹی بہنوں کا ہر طرح سے خیال رکھ رہی ہوں لیکن امہ نے مجھے اپنے گھر سے بالکل باہر نکال دیا ہے مجھ سے امہ کوئی بات نہیں کرتی
مجھے امید ہے کہ کبھی نہ کبھی انہیں اس بات کا حساس سرور ہو جائے گا کہ وہ غلطی پر تھیں آج میں آصف کے ساتھ بہت ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار رہی ہوں لیکن اتنا وقت گزننے کے بعد بھی کبھی کبھی مجھے جن ذات جمیل کا خیال آتا ہے میرے معنی کرنے پر وہ ہمیشہ کے لیے مجھے چھوڑ کر چلا گیا تھا اب کبھی وہ میرے راستے میں نہیں آیا تھا
اور زندگی میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے
What's Your Reaction?