کنگن دیش کا شہزادہ اور لومڑی کی کہانی

کنگن دیش کا شہزادہ اور لومڑی کی کہانی

Oct 31, 2024 - 17:15
 0  6
کنگن دیش کا شہزادہ اور لومڑی کی کہانی
کنگن دیش کا شہزادہ اور لومڑی کی کہانی


 اسلام علیکم پیارے دوستوں کسی زمانے کا ذکر ہے ایک بادشاہ تھا اس کی ایک ہی لڑکی تھی نہائت ہسین و جمیل ہر فن میں تاک شے سواری میں شہر آعفاق بادشاہ اور شہزادی کو گھوڑوں کا بہت شوق تھا جو گھوڑہ اچھی نسل کا سودہگر لاتے تھے بادشاہ مومانگی قیمت دے کر وہ خرید لیتے تھے ایک دن ایک سودہگر ایک سفید گھوڑہ لے


بادشاہ نے بلا کر دیکھا تو وہ اس قدر خوبصورت تھا کہ وہ حیران رہ گئے انہوں نے ہزاروں گھوڑے دیکھے تھے مگر ایسا پیارہ جنور آج تک نظر سے نہیں گزرہ تھا بادشاہ نے صدہگر سے کہا اس کی جو قیمت تم مانگو گے ہم دیں گے صدہگر نے ہاتھ بان کر عرس کیا حضور جو مرضی آئے انائت فرما دیں لیکن یہ گھوڑہ عجیب و گریب ہے نہ عام گھوڑوں کی درہ گھاس کھاتا ہے نہ دھانہ کھات


نہ پانی پیتا ہے اس وجہ سے اسے کوئی نہیں خریتا چونکہ حضور کو گھوڑوں کا بہت شوق ہے اس وجہ سے میں یہاں لے آیا ہوں بادشاہ اور وزیر دونوں نے حیران ہو کر کہا پھر یہ کیا کھاتا ہے صوداگر بولا حضور تانے کی جگہ تو یہ بادام پستے اکھروٹ کشمش کھاتا ہے اور گھاس کی جگہ زافران کھاتا ہے پانی کے بدلے دود پیتا ہے بادشاہ نے مسکرہا کر کہا پھر کوئی بات نہیں


ہم یہی چیزیں اس کو کھلائیں گے۔ صدہگر نے ہاتھ جوڑ کر کہا حضورؐ والا کو میں دھوکا نہیں دینا چاہتا اس میں ایک عیب بھی ہے پادشاہ نے پوچھا وہ عیب کیا ہے وہ بھی بتا دو صدہگر بولا حضور یہ اپنی پیٹ پر کسی کو سوار نہیں ہونے دیتا اسی وجہ سے کسی نے آج تک اتنی حسین چیز کو نہیں خریدا پادشاہ بولا کوئی حرج نہیں ہماری سواری کے لیے سینکڑوں گھوڑے موجود ہیں اور صد


تو باشا سلامت نے وزیر سے کہا خزانچی سے کہے کر اس صودہگر کو ایک لاکھ روپے دلوہ دو اور دو معماروں کو حکم دو کہ ہمارے محل کے قریب ایک صاف اور کشادہ استبل شام تک تیار ہو جائے اور سونے چاندی کی بالٹیاں بنوائو غرض حکم کی دیر تھی من و میوہ اور سیر و زافران آ گئی گوانوں کو حکم مل گیا کہ دونوں وقت تازہ دود پہنچائے کریں دو خوبصورت لباس والے سائس


قیمتی گھوڑے کی خدمت کے لئے مقرر کر دئیے گئے۔ شام کو خود باشا سلامت نے رشم کی ڈھوری سے گھوڑے کو بندوایا اور اس کی پیو ٹھو کر مہل میں واپس آ گئے۔ دوسرے دن شہر میں مشہور ہو گیا کہ باشا سلامت نے ایسا گھوڑا خریدا ہے جو دانے کے بدلے میوہ کھاتا ہے اور گاز کے جگہ زفران چرتا ہے۔ اس عجیب و گریب گھوڑے کو دیکھنے لوگ جوگدر جوگ آنے لگے استبل کے قریب ایک مجمہ ل


مگر کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی لوگ باہر سے ہی دیکھ کر چلے جاتے تھے کئی دن تک لوگوں کا حجوم لگا رہا گھوڑے کی خبر مہل میں بھی پہنچی شہزادی پہلے ہی گھوڑوں کی شوکین تھی اس کی تاریفیں سن کر اس سے دیکھنے کا شوق پیدا ہوا اس نے باشا سے کہا ابہ حضور میں نے سنا ہے کہ آپ نے کوئی گھوڑا خریدا ہے جو میوہ کھاتا ہے اور دود پیتا ہے مجھے اس کو دیکھنے کا بہت شوق ہو گیا


کسی دن موقع دیجئے تاکہ میں بھی جا کر دیکھوں پادشاہ نے کہا بیٹی ہم خود تمہیں دکھانا چاہتے تھے مگر ریائے کو اس کو دیکھنے کا بہت شوق تھا ہم نے سوچا پہلے یہ لوگ دیکھ لیں تم اتمانان سے دیکھنا اب کل پردے کا انتظام ہو جائے گا تم جا کر دیکھ لینا لیکن خبردار سواری کی کوشش نہ کرنا وہ بہت شریر جانور ہے کسی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا غرض


دوسرے دن مہل سے لے کر استبل تک کناتے لگوا دی گئی شہزادی اپنی کینیزوں اور سہلیوں کے ساتھ گھوڑے کو دیکھنے آئی حقیقت میں جیسا سنا تھا شہزادی نے گھوڑے کو ویسا ہی پایا اس کے قریب جا کر اس کی پیٹ پر ہاتھ پھیرا اور خود اس کو میوا کھلایا گھوڑے کی سوارے کی وہ بے ہت شوکین تھی ایسا خوبصورت جانور دیکھ کر اس کا دل نہیں مانا اس نے سوچا دیکھنے میں تو بڑا سیدہ مالوم ہوتا ہے


میں کوشش تو کروں، زیادہ سے زیادہ گرا دے گا۔ اس نے اپنی کنیزوں سے کہا، خبردار ابا حضور سے مت کہنا، میں زرا اس کی سواری لینا چاہتی ہوں۔ سب نے بہت منع کیا، مگر شہزادی بغیر کاثیوز ذین کے کود کر گوڑے کی ننگی پیٹ پر سوار ہو گئی اور گوڑا گردن جھکائے کھڑا رہا۔ شہزادی نے اپنے سات والیوں سے کہا، دیکھا تم نے، کامہ خال لوگوں نے بدنام کیا تھا، دیکھو تو۔


یہ کچھ نہیں کہتا اور شہزادی گھوڑے پر سے اتر آئی اور پیار سے اس کی پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگی لوڈیوں کو تاکیت کر دی کہ امہ جان کے آگے بھی اس کا ذکر مطرنا وہ ناراض ہو جائیں گی تھوڑی دیر ٹھیکر شہزادی اپنے محل میں واپس آ گئی شام کو گھوڑے کو مہوا دیا جاتا تھا آج اس نے مو نہیں لگایا دود کی بالٹی سامنے رکھی گئی گھوڑے نے مو پھیر لیا زافران دکھایا


گھوڑے کا خیال رکھنے والے سائس نے سوچا شہزادی صاحبہ آئی تھی وہ اسے زیادہ میوہ کھلا گئی ہوں گی اس وقت گھوڑے کو بھوک نہیں ہوگی دوسرے دن سبا بھی گھوڑے نے کچھ نہ کھایا اور نہ کچھ بھییا اور گردن جکائے کھڑا رہا سائسوں نے دروقا استبل کو خبر کر دی وہ گھبرایا ہوا آیا گھوڑے کی پیٹ تھپ تھپ آئی پیار کیا اپنے ہاتھ سے کھلانے پھلانے کی کوشش


اور خاموش کھڑا رہا پادشا کی پسندیدہ اور قیمتی چیز تھی جس نے پریشان ہو کر وزیر سے سارا معاجرہ بھیان کیا اس کے بعد سن کر وزیر بھی گھبرا گیا وزیر جانوروں کے ڈاکٹر کو بھی لے آیا سب نے اچھی طرح دیکھا اور بظاہر کوئی بیماری معلوم نہیں ہوتی تھی حقیم نے احتیاطا پیٹ کی سفائی کی دوائیاں لکھ دی اسی وقت آدمی دوڑ گئے ڈاکٹروں نے اپنے ہاتھ سے دوہ پلانے


مگر گھوڑے نے دلتیاں مارنا شروع کر دیں کسی کو اپنے قریب نہیں آنے دیا وزیر نے جا کر باشا سلامت سے تمام حال بھیان کر دیا بادشاہ خود تشریف لے آئے اور اپنے ہاس سے گھوڑے کے جانی بڑھوٹ کی بالٹی بڑھائی مگر گھوڑے نے مو پھیل لیا میوہ دیا وہ بھی نہیں کھایا بادشاہ نے سائسوں کو بھلانے کا حکم دیا سب ہاتھ بندے حاضر ہوئے بادشاہ نے ایک ایک سے سوال کیا ٹرائ


کہ اگر کسی نے کوئی بطمیزی یا لاپروائی گھوڑے کے ساتھ کی ہوگی تو اس کا سر کلم کر دیا جائے گا۔ گھوڑے کی دیکھبال کرنے والے سب لوگوں نے ہاتھ باند کر عرض کیا حضور ہم تو بہت پیار محبت سے پیش آتے ہیں دونوں وقت بالٹیاں صاف کرتے ہیں دن میں کئی کئی مرتبہ تحان کی سپائی کرتے ہیں ایک بھوڑے سائس نے ہاتھ باند کر کہا حضور جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں؟ بادشاہ نے جواب دیا


تمہاری جان تم کو بخشی کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟ سائس بولا حضور میں اکیلے میں عرض کروں گا پادشاہ نے حکم دیا اور تمام لوگ باہر چلے گئے پھر سائس بولا حضور آج تیسرا دن ہے شہزادی صاحبہ گھوڑے کو دیکھنے تشریف لائی تھی تفاق سے اس وقت میں میوے کی بھوری لے کر آ رہا تھا یہاں پردہ ہو گیا میں جلدی میں باہر نہیں جا سکا بھوری کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا


اور کیا دیکھتا ہوں؟ شہزادی سعبہ گھوڑے کو دیکھر بہت خوش ہوئی اور اپنے ہاں سے میوہ کھلایا بڑی دیر تک اس کی پیٹ تھبکتی رہی گھوڑہ کاموش گردن جھکائے کھڑا رہا شہزادی نے اپنے سہلیوں اور کنیزوں سے کہا یہ تو بڑا سیدہ اور نیک جانور ہے میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس پر سواری کروں سب نے بہت منع کیا مگر شہزادی سعبہ گھوڑے کی سواری کی بہت ش


گھوڑا خاموش کھڑا رہا شہزادی صاحبہ بہت خوش ہوئی اور اس کی پیٹ ٹوکر چلی گئی بس حضور اس وقت سے اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے اور ہر وقت آنکھوں سے پانی بھتا رہتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے وہ رو رہا ہے بادشاہ نے تھوڑی دیر خاموش رینے کے بعد کہا اچھا تم جاؤ مگر خبردار کسی کے آگے اس بات کا ذکر ود کرنا ورنہ تمہارا زن بچہ کولوں میں پلو آ دیا جائے گا سائ


حضورﷺ کبھی مو سے بھاپ نہیں نکالوں گا۔ بادشاہﷺ سلامت اسی وقت مہل میں آئے اور شہزادی کو بلا کر کہا بیٹی وہ گھوڑا جو ہم نے اپنی پسند کا لیا تھا تین دن سے بھیمار ہے نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے بس گردن جھکائے کھڑا رہتا ہے۔ شہزادی نے افسوس کے علیجے میں کہا ابا جان یہ تو بہت برا ہوا اس کا علاج تو ہونا چاہیے بہت نائیاب گھوڑا ہے۔ بادشاہﷺ بولا

ہاں بیٹی مجھے بھی بہت پرشانی ہے اس کا علاج کیسے ہو وہ تو اپنے قریب کسی کو بھٹکنے نہیں دیتا اور دولتیاں چلاتا ہے شہزادی بولی ابا حضور اگر آپ اجازت دیں تو میں بھی جا کر دیکھوں مجھے تو وہ بہت پسند آیا پادشاں تو خود یہی چاہتے تھے کہ دیکھیں سائس کی بات کہاں تک ٹھیک ہے اسی وقت پردے کا انتظام ہو گیا پادشاں سرامت خود لڑکی کو لے کر استقبل میں آئے جون ہی ش


گوڑے نے مو اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اس نے پیار سے اس کی پیٹ خبتپائی اور میوہ جو بالٹیوں میں رکھا تھا اسے اپنے ہاس سے کھلا نے لگی وہ خوشی خوشی کھانے لگا شہزادی نے دود کی بالٹی اس کے آگے رکھی وہ سارا دود پی گیا زافران آگے بڑھائی وہ بھی اس نے کھالی بادشاہ خموش کھڑے دیکھتے رہے سائز کے کہنے کی تصدیق ہو گئی شہزادی بولی ابہ حضور یہ تو اچھ


آپ فضول میں پریشان ہو رہے ہیں؟ بادشاہ بولا ہاں بیٹا مجھے سائسوں کی غفلت معلوم ہوتی ہے تھوڑی دیر ٹہر کر بادشاہ شہزادی کو ساتھ لے کر واپس جلے گئے دوسرے دن پھر سائسوں نے وہی شکایت کی بادشاہ سلامت کو اطلاع پہنچی انہوں نے بڑے وزیر کو بلا کر تمام واقعہ سنایا اور پوچھا بتاؤ اب کیا کرنا چاہیے؟ وزیر بولا حضور یہ تو ناممکن ہے


کہ شہزادی صاحبہ روز استبل جا کر گھوڑے کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا کریں۔ بادشاہ بولا، یہ بھی تو دل نہیں چاہتا کہ ایسے کیمتی اور نائب چیز کو بھوکو مار دیا جائے۔ وزیر بولا، بھاشا سلامت، اس کی آسان ترقیب یہ ہے، کل دربار میں مجھے حکم دیں کہ شہزادی صاحبہ کو گھوڑا پسند آ گیا ہے، انہیں توفے میں دیا جاتا ہے اور شہزادی کے محل میں استبل بنوا دیا جائے اور وہاں اس گھوڑے کو پہنچا


سائسوں کا کام لونڈیاں باندیاں کر دیا کریں گی بادشاہ کو وزیر کا یہ مشورہ پسند آیا دوسرے دن شہزادی کے مہل کے سہن میں استبل بن کر تیار ہو گیا اور گھوڑے کو وہاں پہنچا دیا گیا شہزادی کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی کہ لاکھوں روپے کی چیز بابا جان نے مجھے دوفہ کر دی وہ روزانہ اپنے ہاتھوں سے گھوڑے کو میوا کھلاتی دود کی بالٹی اس کے آگے رکھتی ایک لونڈھی جو سب سے ک


اسے استبل کی سفائی کے لیے لگا دیا گیا۔ شہزادی کو بھی گھوڑے سے بہت محبت ہو گئی تھی۔ اس نے استبل میں اپنے بیٹھنے کے لیے ایک تق بچھوالیا تھا اور اکثر اپنے سہلیوں کے ساتھ وہاں بیٹھ کر شترنج کھیلا کرتی تھی۔ کئی مہینیں اسی طرح گزر گئے۔ اس عرصے میں کئی شہزادوں کے پیغام آئے، مگر شہزادی نے شادی سے انکار کر دیا۔ وہ سوچتی تھی، اگر میری شادی ہو گئی تو گھوڑ


میں اس کی دیکھبھال کس طرح کر سکوں گی؟ یہ تو میری ہی ہاں سے کھاتا پیتا ہے جس سے شادی ہوگی پتانی وہ یہ گوارہ کرے گا یا نہیں میرے جانے کے بعد تو یہ بیچارہ سوک کر مر جائے گا وہ اپنی سہلیوں سے مزاک میں کہا کرتی تھی میری شادی تو گھوڑے سے ہو گئی ہے ایک دفعہ رات کو اتفاق سے شہزادی کی آنکھ کھل گئی بڑی دیر تک وہ کروٹے بدلتی رہی آخر اٹھ کر باہر ٹہلنے لگی اور چلتے چلتے استبل


وہاں کیا دیکھتی ہے کہ اس کے تخت پر چمپا لونڈی جو استبل صاف کیا کرتی تھی۔ بال کھولے بیٹھی ہے اور ایک نیحائیت حسین و جمیل نوجوان اس کے پاس بیٹھا ہے۔ شہزادی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ وہ بڑی دیر تک کھڑی خاموشی سے دیکھتی رہی۔ گھوڑا استبل میں موجود نہیں تھا۔ اسے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کیا کسہ ہے۔ شہزادی نیحائیت اکلمد اور حوشیار تھی۔


خاموشی سے آ کر اپنے پلنگ پر لیٹ گئی بغر غصے کی وجہ سے اسے نین نہیں آئی اور اسی حال میں صبح ہو گئی آج شہزادی بہت اداز اور خاموش تھی اس نے کسی سے کسی بات کا ذکر نہیں کیا وہ سردرد کا بحانہ کر کے لیٹی رہی گھوڑے کو بھی کچھ نہیں کھلایا پلایا شام کو چمپا کو بلا کر اس نے رات والے آدمی کے مطالبک پوچھا وہ سحم گئی اور کہا


حضور نے دیکھ لیا ہے تو مجھے بتانا ہی پڑے گا گھوڑا اصل میں کہیں کا شہزادہ ہے اس کو میرے باال بہت پسند آگئی ہیں آدھی رات کو آدمی بن کر بیٹھتا ہے اور میرے باال کھلوائ کر دیکھتا ہے اس کے بعد پھر گھوڑا بن جاتا ہے شہزادی نے اپنا غصہ زبت کر کے کہا اگر آج تُو اپنے باال کھول کر اس کے سامنے بیٹھی تو میں تیرے باال کٹوادوں گی اور باشا سلامہ سے کہے کر تُجھے ٹوثے ت


اس دن نہ تو خود شہزادی استبل میں گئی اور نہ چمپا کو جانے دیا رات کو اس کو ایک کٹڑی میں بند کروا کر تالا ڈلوہ دیا اور اتمینہان سے سو گئی دوسری دن صبح لونڈی نے آکر اتلاع دی شہزادی صاحبہ گھوڑا تو غائب ہے شہزادی نے کہا جاؤ چمپا کو بلا کر لاو تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے آکر جواب دیا حضور چمپا اپنی کٹڑی میں نہیں ہے شہزادی خود اٹ کر پہلے استبل میں گئی


وہاں اس کو ایک کاغس کا ٹکڑا ملا شہزادی کاغس کا ٹکڑا اٹھا کر پڑھنے لگی اس پر لکھا تھا کون آئے گا کنگن کے دیس کون کاتے گا چمپا کے کیس میں کنگن دیس کا شہزادہ ہوں مجھے ایک ایسا منطر آتا ہے جس کے عمل سے اپنا روپ بدل سکتا ہوں میں تمہارے ملک میں گھوڑے کا بیس بدل کر سہر کرنے آیا تھا یہاں میں پکڑا گیا سوداگر نے تمہارے والد کے ہاتھ فرو


میں پہلی نظر میں تمہارا گرویدہ ہو گیا تم نے بجے بہت آرام اور محبت سے رکھا مگر مجھے تمہاری لونڈی چمپا کے باال بہت پسند آئے کئی دن سے میں اس کے باال کھلوائ کر دیکھا کرتا تھا کل تم نے دیکھ لیا اور چمپا کو دھمکی دی کہ اس کے باال کٹوادوں گی مجھے بہت افسوس ہوا لہٰذا میں اسے لے کر جا رہا ہوں صرف اس کے باال دیکھنے کو اور تمہیں زندگی بھر نہیں بھولوں گا نہ کسی


یہ کاغز پڑھ کر گسے کے مہر شہزادی کے آنکھوں میں خون ادھر آیا مگر وہ خاموش رہی نہ اس نے ناشتہ کیا نہ شب خوابی کا لباس اتارا کاغز مٹھے میں دبا کر وہ سیدی اپنی ماں کے پاس پہنچی بیٹی کو بے وقت آتا دیکھ کر بادشاہ بیگم پریشان ہو گئیں انہوں نے گھبرا کر پوچھا میری بچی خیریت تو ہے تم کچھ رنجیدہ سی نظر آ رہی ہو


شہزادی اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی انہوں نے اسے کلیجے سے لگا کر کہا بیٹی کچھ بتاؤ تو سہی کسی نے آنگ دکھائی ہو تو اس کی آنگ نکلو آدھوں گی کسی نے انگلی اٹھائی ہو تو اس کی انگلی کلم کرو آدھوں گی میری چان تم کیوں رو رہی ہو؟ شہزادی نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا امہ جان گھوڑا غایب ہو گیا ملکہ نے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا ہو ج


میں تو پہلے ہی سمجھتی تھی کہ وہ پرستان کا گھوڑا ہے۔ شہزادی نے اپنے آنس کو پونچ کر کہا امی جان وہ اکیلا چلا جاتا تو کوئی بات نہیں تھی مگر وہ تو چمپا لونڈی کو اپنے ساتھ لے گیا شہزادی نے ایک دن پہلے جو کچھ دیکھا تھا وہ اپنی ماں سے بیان کر دیا اور ملکا بھی حیران ہو گئی پاسشا بیگم نے سیکڑوں گالیاں چمپا کو دیں اور بولی بیٹی تم فکر نہ کرو


تمہارے ابا جان کسی مہم پر گئے ہیں وہ آج آئیں گے تو چمپا مردار کو پکڑو آ کر بلوالیں گے شزادی بولی میں نے قسم کھالی ہے جب تک چمپا کے بال نہیں کھٹوں گی میں چین سے نہیں بیٹھوں گی اس وقت آپ سے جازت لینے آئی ہوں مجھے کنگن دیس جانے دیجئے پادشاہ بیگم نے پریشان ہو کر کہا میری بچی تم کہاں جاؤگی میری اتنی عمر ہو گئی مگر آج پہلی دفعہ کنگن دیس کا نام س


شہزادی بولی اگر آپ مجھے اجازت نہیں دیں گی تو میں زہر کھالوں گی اپنی توہین کسی حال میں گوارہ نہیں کر سکتی بادشاہ بیگم نے بہت سمجھایا روئی پٹیں لیکن شہزادی اپنی زد پر اڑھی رہی اور آخر ان کو خاموش ہونا پڑا قصہ مختصر دوسری دن شہزادی نے کچھ اشرفیوں اور کچھ جوارات لیے چار مردانہ جوڑے سلوائے تھوڑا سا خوشک میوہ لیا اور ایک تیز رفتار گ


مردانہ بھیس میں نکل پڑی اور اپنی ماہ سے کہہ گئی انشاءاللہ تین مہینے کے اندر واپس آ جاؤں گی اپنے ملک کی سرحت پار کر کے اس نے بغیر پتہ و نشان کے اپنا سفر جاری رکھا روز نیا دانہ روز نیا پانی ایک جنگل چھوڑتی تھی دوسرا پکڑتی تھی رات کو اپنے گھوڑے کے آرام کی غرس سے کسی درکھ کے نیچے پڑ جاتی تھی غصے میں نہ اس کو ڈر تھا نہ کوئی خوف


کوئی آبادی نظر آتی تو وہ کنگن دیس کا پتہ پوچھتی مگر ہر شخص انکار کر دیتا کسی نے آج تک یہ نام نہیں سنا تھا اسی طرح ایک مہینہ گزر گیا مگر شہزادی مایوس نہیں ہوئی اس کو یقین تھا کہ کبھی نہ کبھی اپنی کوشش میں وہ ضرور کامیاب ہو جائے گی اسی طرح ایک دن وہ سو کر اٹھی تو سامنے اس کو ایسا جنگل نظر آیا جس کے آگے جانا نہ ممکن تھا گویا درختوں کی ایک دوار تھی


جس نے آگے جانے کا راستہ روک رکھا تھا۔ شہزادی بہت پریشان ہوئی اور سوچنے لگی کہ اب کیا ہوگا؟ کیا مجھے ناکام واپس جانا پڑے گا؟ مگر ایسا تو میں ہرگز نہیں کروں گی یا تو چمپا کے بال کھات کر لے جاؤں گی یا اسی جنگل میں درندوں کی خوراک بنوں گی وہ اللہ کا نام لے کر کھڑی ہو گئی اور خنجر اپنی کمر سے نکال کر درختوں کی ٹہنیاں کھٹنا شروع کی ایک گھنٹے کی کو


اس کو اندر کچھ روچنی نظر آئی۔ آخرکار کچھ دیر کے بعد اس نے اتنا راستہ بنا لیا کہ ایک آدمی آسانی سے اندر جا سکتا تھا۔ شزادی بہت تھک گئی تھی۔ اس لئے اس نے کچھ دیر آران کر کے اپنے گھوڑے کو پیار کیا اور خنجر ہاتھ میں لے کر جنگل میں داخل ہو گئی۔ اس کی حیرت کی انتہان آ رہی جب اس نے دیکھا آگے ایک میدان ہے اس میں ایک جھوپڑی بنی ہوئی ہے۔


وہ دبے پاؤں جھوپڑی کے قریب گئی اور اس نے اندر جھاکا تو وہاں کیا دیکھتی ہے کہ ہیرن کی کھال پر ایک ضعیف شخص بیٹھا تصبی پڑ رہا ہے۔ شہزادی یہ دیکھ کر دیشت کے مارے تھر تھر کھاپنے لگی۔ اس کے ہاتھ سے کھنجر گری پڑا۔ اس کی آواز پر ان بزرگ شخص نے دونوں ہاتھوں سے اپنی پلکے اٹھا کر شہزادی کی طرف دیکھا۔ پھر کھنجر کو دیکھا اور پوچھا بیٹی کیا ہمیں ق


شہزادی ڈر کے مار ان کے قدموں میں گر پڑی اور بولی بابا، بلا کہیں ایسی گستاخی میں کر سکتی ہوں میں تو خود ایک کمزور لڑکی ہوں کسی ضروری کام سے اپنے گھر سے نکلی ہوں بابا نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا بیٹی، تیرے اوپر کیا مسیبت آن پڑی سرہ بھیان کرو شہزادی نے سارا قصہ بابا کو سنا دیا بابا نے مسکرہ کر کہا وہ لڑکا ایسا ہی منچلا ہے


میں نے ہی اس کو وہ منتر سکھایا تھا مگر اس نے تمہارے ساتھ دغا کی ہے اب وہ عمل بھول جائے گا۔ شہزادی نے ہاتھ جوڑ کر کہا بابا آپ مجھے کنگن دیس کا پتہ بتا دیں میں اپنی توہین کا بدلہ لوں گی۔ بابا بولا بیٹی قتل کس کو کرنا ہے مگر بیٹی کسی کو قتل نہ کرنا۔ شہزادی نے کہا نہیں بابا میں تو صرف اپنی لونڈی کے بال کھڑ کر واپس چلی جاؤں گی۔


بابا بولے، اس جنگل کے آگے کنگن دیز ہے، اگر تم اندر سے چلی جاؤ تو سورج گروب ہونے سے پہلے شہر میں داخل ہو چاؤ گی۔ شہزادی نے ہاتھ جوڑ کر کہا، بابا میرا گھوڑہ اندر کیسے آئے گا؟ میں بھی مشکل سے اندر آئی ہوں۔ بابا بولے، جاؤ خدا کا نام لے کر اس کی رسی پکڑ کر لے آؤ۔ شہزادی جس راستے سے اندر آئی تھی، اسی راستے سے واپس گھوڑے کے پاس آئی۔


اور بابا کے کہنے سے وہ گھوڑے کو لے کر اندر داخل ہوئی۔ اس وقت اسے وہ راستہ کھاسا کشادہ معلوم ہوا۔ بابا نے ہاتھ کے شارع سے شہزادی کو دوسری طرف جانے کو کہا۔ وہ عدب سے سلام کر کے آگے بڑھی۔ اب میدان صاف تھا، وہ گھوڑے پر سوار ہو گئی۔ تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ شہر پنا کی فصیلے نظر آنے لگی۔ اس نے گھوڑے کی رفتار تیز کر دی۔ وہ خوشی سے پھولے نہیں سمار رہی تھی۔


اس کی منزلیں مقصود اس سے سامنے نظر آ رہی تھی ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا کہ وہ شہر میں داخل ہو گئی نئی جگہ اجنبی لوگ سارے دن کی تھکی ہاری سوچنے لگی کہ کہاں ٹھہروں گی لوگ اس نو عمر لڑکے کا حسن و جمال دیکھ کر حیران رہ گئے پردیسی سمجھ کر ہر شخص نے اس کو اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دی مگر اس نے سب کا شکریہ دا کر کے کسی سراعے کا پتہ پوچھا


کسی اللہ کے بندے نے اس کو ایک نیک سرائے میں پہنچا دیا۔ سرائے کی مالکن بھٹیاری نے اسے ہاتھ و ہاتھ لیا۔ اس کے تھیرنے کے لیے ایک کوٹھڑی کھول دی۔ پلنگ پر بستر ہر چیز موجود تھی۔ شہصادی نے خدا کا شکر ادا کیا۔ اپنے کپڑوں کا تھیلا ایک طرف رکھا۔ گھوڑے کو لے جا کر استبل میں باندھا اور مو ہاتھ دو کر پلنگ پر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد بھٹیاری کھانہ لے


شوربہ پانی کی طرح پتلا، ایک بوٹی ایک آلو کا قطلا، مصور کی دال وہ بھی دال علاگ اور پانی علاگ۔ تندور کی موٹی موٹی دو روٹیاں، شہزادی نے بلا ایسا کھانا کہاں کھایا تھا، لیکن اس وقت وہ اسے آزار نعمت معلوم ہوا۔ شہزادی نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور ٹانگے پھیلا کر بے خبر سو گئی۔ صبح کو جب سورج کافی چڑھ گیا تو بھی بھٹیاری نے آکر شہزادی کو جگایا۔


اے میہ مصافر، تم تو ایسے گھوڑے بیج کر سوئے ہو کہ اٹھنے کا نام نہیں لیتے، ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ شہزادی گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ اس نے بھٹیاری سے کہا، میرے گھوڑے کو گاس دانہ وغیرہ بھی دیا ہے۔ بھٹیاری نے ہس کر کہا، میہ مصافر، ساری عمر انھی کاموں میں گزری ہے۔ میں مصافروں کی خدمت کرتی ہوں۔ میرا میہ ان کے گھوڑے اور خچنوں کی دیکھبال کرتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ مٹکتی ہوئی


شہزادی نے اٹھ کر مو دھویا بٹیاری نے گڑ کا حلوہ اور ایک گلاس دود کا شہزادی کو دیا اس نے بہت تاریفیں کر کے کھایا اور بٹیاری سے کہا میں شہر میں پہلی دفعہ آیا ہوں یہاں کا بادشاہ کون ہے ریائے کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے یہاں کون کون سی امارت دیکھنے کے قابل ہیں بٹیاری نے جواب دیا میہ مصافر تم بہت خوش کسمت ہو کہ اب آئے ہو


ایک مہینے پہلے ہمارا شہر ماتم قدہ بنا ہوا تھا ہمارے باشا کا ایک ہی لڑکا ہے وہ کئی مہینوں تک غائب رہا باشا سلامت نے اس کے گم میں دربار میں آنا چھوڑ دیا تھا ماباب دن رات روتے رہتے تھے رات کو سارے شہر میں اندھیرا رہتا تھا خدا خدا کر کے ایک مہینہ پہلے وہ گھر آ گیا مگر بجائے خوشی کے باشا سلامت اور باشا بیگم بہت رنجیدہ ہیں شہزادی نے پوچھا


رنجیدہ کیوں ہیں؟ بھٹیاری بھولی اے میہا مسافر ماباب کو ارمان ہوتا ہے کہ اپنی علاد کی شادی کئی اچھی جگہ کریں مگر سنا ہے شہزادی ایک کالی کلوٹی عورت کو لے آیا ہے اور اپنے محل میں اس کو رکھا ہے کان گناہ دار ہیں دیکھنے والے کہتے ہیں کہ وہ لونڈی معلوم ہوتی ہے کسی کو وہاں جانے کا حکم نہیں اس لونڈی کو باشا سلامت نے آج تک اپنے محل میں نہیں آنے دیا


شہزادی نے مسکرہا کر کہا پسند اپنی اپنی، غرض بھٹیاری سے یہ تمام باتیں سن کر شہزادی کو کچھ اطمینان ہوا بلکہ خوشی ہوئی کہ یہاں بھی اسے کوئی عزت کی نگاس سے نہیں دیکھتا بی بھٹیارن نے برطن اٹھا کر جاتے ہوئے کہا میامسافر نہا دھو کر تیار ہو جاؤ اس کے بعد شہر کی سہر کو نکلو یہاں کا شای باگ دیکھنے لوگ دور دور سے آتے ہیں


مجھے کوئے پر نہانے کی عادت نہیں ہے کوئی پردے کی جگہ بتاؤ واہ میاں مسافر واہ تم تو اوردوں کی طرح شرماتے ہو ابھی کمسن بھی ہو خیر میرے ساتھ چلو جہاں میں نہاتی ہوں وہاں جا کر نہا لو شہزادی نے غسل کیا کپڑے بدلے اور تیار ہو کر اپنے گھوڑے کے پاس آئی پٹیاری بولی شاہی باگ میں گھوڑے کو لے جانے کی اجازت نہیں ہے یہاں سے قریب ہی ہے راستے میں کسی سے پوچ


اگرز شہزادی سرائے سے باہر نکلی اور پوچھتی پوچھتی شاہی باغ میں پہنچی اور کیا دیکھتی ہے ایک بڑیا مالن پھول چن رہی ہے یہ بھی اس کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی اس نے ہمدردی سے کہا بڑی بھی تمہاری کمر تو جھکی ہوئی ہے تم پھول چنتے چنتے تھک گئی ہو بڑیا نے نگا اٹھا کر دیکھا تو ایک نیائید خوبصورت لڑکا کھڑا تھا بڑیا نے پوچھا بیٹا تو کہا


اور کس کا لال ہے؟ شہزادی نے جواب دیا امہ میں پردیسی ہوں تمہارے شہر کی بہتاری سنی تھی دیکھنے چلا آیا بڑیا نے پوچھا اچھا بیٹا تُو ٹھیرہ کہا ہے؟ شہزادی نے اس کے ساتھ پھول چنتے ہوئے کہا میں سرائے میں ٹھہرہ ہوں اس وقت ذرا باگ کی سیر کرنے چلا آیا بڑیا بولی بیٹا تُو جے دیکھ کر میرا دل بڑا خوش ہوا میں اکیلی رہتی ہوں


تم میرے گھر چلو اور وہاں ٹھہر جانا یہ بٹیاری سیدھے سادے مسافروں کو لوٹ لیتی ہے شزادی بولی اچھا امہ اچھا امہ میں تمہارے گھر آ جاؤں گا مگر تم اتنی مہنت کیوں کرتی ہو اب تو تمہاری ٹوکری پھولوں سے بھر گئی ہے چلو میں تمہارے گھر تک پہنچا دوں بودیا نے اسے دعائیں دے کر کہا بیٹا مہنت نہ کروں تو کھاؤں گی کہاں سے اب یہاں سے جا کر کھانا پکاں گی


رات کو شہزادی کے محل میں لے کر جاؤں گی اس کی بیوی کو اپنے ہاس سے پہنا کر آؤں گی سوائے میرے پہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے شہزادی سمجھ گئی ضرور بڑیا چمپا کے لیے گہنا بنا کر لے جاتی ہے یہ خیال آتے ہی شہزادی کے تن بدن میں آگ لگ گئی مگر اس نے سوچا یہ بڑا اچھا موقع ہے میں اپنا سمان لے کر بڑیا کے ہاں آ جاؤں پولوں کی ٹوکریس نے بڑیا کے گھر پہنچائی


اور اس سے کہا امہ میرا گھوڑا بھی ہے بڑیا نے جواب دیا بیٹا دیکھ میرے گھر کا انگن بہت بڑا ہے نیم کے درخت کے نیچے تو اپنا گھوڑا بان دینا شہزادی نے سراعے میں آکر کھانا کھایا اور اپنا ثیلہ اٹھا کر بھٹیاری سے کہا بی بھٹیاری میں اپنی خالہ کی تلاش میں آیا تھا اتفاق سے وہ راستے میں مل گئی اب میں اس کے گھر جا رہا ہوں شہزادی نے دو چرفیہ بھٹیاری کو دیں وہ


اور دعائیں دینے لگی شزادی گھوڑے پر سوار ہو کر بڑیا کے گھر آ گئی کئی دن وہ خاموشی سے دیکھتی رہی پھر رفتہ رفتہ اس نے پول پیرونے شروع کر دئیے بڑیا کہا کرتی تھی بیٹا تو لڑکا ہے یہ تیرا کام نہیں مگر وہ کہتی تھی نہیں امہ تمہیں تو کم نظر آتا ہے دیکھنا میں دو چار دن میں تم سے اچھا گہنا بنانے لگوں گی یہ سن کر بڑیا بھی خاموش ہو جاتی


ایک دن شہزادی نے خود اپنے ہاں سے بہت خوبصورت گہنا بنایا بڑیا مالن نے کہا بیٹا تو انہیں تو ایسا گہنا بنایا ہے کہ شہزادی کی بیوی ضرور پوچھے گی کہ کس نے بنایا ہے تو میں کیا جواب دوں گی شہزادی بولی امہ تم اس سے گہنا میری بانجی اپنے سسرال سے آئی ہے یہ گہنا اس نے بنایا ہے بڑیا خاموش ہو گئی رات کو آٹھ بجے دستور کے مطابق وہ شہزادی کے محل میں گئی


پولوں کی چنگیزی کھولی اس نے گھنا نکالا شہزادہ کی بیوی نے خوش ہو کر کہا آج تو بڑا خوبصورت گھنا بنایا ہے تیرے ہاتھ کا نہیں معلوم ہوتا سچ سچ بتا یہ کس نے بنایا ہے بڑیا بولی حضور میری بھانجی اپنے سسرال سے آئی ہے یہ گھنا اسی نے بنایا ہے شہزادہ کی بیوی نے کہا مالن کل تم اپنی بھانجی کو لے کر آنا ہم اس کے ہاں سے گھنا پینیں گے اور اسی سے اپنی چوٹی بھی گند


اور اس کو بہت سارا انام دیں گے۔ بڑیا تو یہ سن کر سحم گئی۔ اس نے دبھی زبان سے کہا حضور اس کا میہ بھی ساتھ آیا ہے وہ بڑا ظالم ہے میں جا کر کہوں گی مگر وعدہ نہیں کرتی سرکار پتہ نہیں وہ اسے آنے دے گا یا نہیں شہزادہ کی بیوی نے کہا تم جانتی تو ہو کہ یہاں تمہارے سیوہ کوئی نہیں آتا شہزادہ رات کو گیارہ بجے آتا ہے اگر تم اپنی بھانجی کو نہیں لائیں


تو میں تمہیں سزا دوں گی۔ بڑیا نے ہاتھ جوڑ کر کہا حضور میں کوشش کروں گی شہزادی کی بیوی بولی کوشش نہیں، تم اسے لے کر آنا بڑیا اچھا حضور کہتی ہوئی اپنی چنگیزی اٹھا کر گرتی پڑتی گھر پہنچی اور آتے ہی شہزادی سے کہا بیٹا تمہیں مچھے بے موت مروا دیا اب بتاؤ کیا ہوگا شہزادی کی بیوی نے تمہیں بھلایا ہے شہزادی نے ہز کر کہا


تم دیکھنا میں ایسے لڑکی بنوں گی کہ کوئی بھی نہیں پہچان سکے گا تم اتمنان سے سو جاؤ شہزادی کی بات سنکر بڑیا خاموش ہو گئی اس نے بھی سوچا اب اس کی داری مچھے تو نکلی نہیں لڑکیوں کے کپڑے پہن کر رات کو لڑکی ہی لگے گی چنانچہ دوسرے دن شہزادی نے بازار جا کر ایک لہنگا سلوایا اور کرتی دوبٹا خوب گوٹے مسالے کا بنوایا اور خوب تیز دھار کی ایک کنچی خریدی


دوپیر تک سب چیزیں لے کر گھر آ گئی آج اس نے بڑے احتمام سے مکیش لگا کر پھولوں کا گہنا بنایا شہزادی کی بیوی کے لئے روز پھولوں کی چوٹی بنائی جاتی تھی آج اس نے بیسیوں لڑیوں کی چوٹی بنائی اور لال سبس چنگیز اس میں رکھ کر سرخ کپروں سے ڈھانک دی ان سب کاموں سے فارغ ہو کر اس نے اپنے ہاتھ پاؤں میں بجائے میھنڈی کے سرخ رنگ لگا لیا اور تیل میں تھوڑی سی کالک لگا کر


اپنے مو اور ہاتھ پیروں پر مل لیا وہ چاندھی کے زیور بھی خرید لائی تھی آٹھ بجی تیار ہو کر جب وہ چھمچھم کرتی کوٹری سے نکلی تو بڑیا اس کو دیکھ کر دنگ رہ گئی اور بولی بیٹی تو نے اپنا رنگ ساملا کیوں کر لیا شہزادی بولی امہ وہ دیکھ کر یہ نہ کہے کہ خالہ کا رنگ تو ساملا ہے بھانجی کیسے گوری ہو گئی بیس بدلے تو بندہ پورا بدلے


بڑیا یہ سن کر خاموش ہو گئی اور اس کو ساتھ لے کر شہزادے کے محل میں پہچی شہزادی نے دیکھا کہ چمپا بڑے ٹھار سے زرنگا مسئری پر تقیقہ سہارہ لئے پڑی ہے اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا اگر اس کا بس چلتا تو خنجر سے اسی وقت اس کا کام تمام کر دیتی مالن نے جھک کر سلام کیا شہزادی کو بھی سلام کرنا پڑا شہزادی کی بیوی نے کہا مالن تمہاری بھانجی تو بڑی ٹھاردار ہے


مگر یہاں گھنگٹ کیوں نکال رہی ہے؟ مالن نے پولوں کی چنگیز کھولتے ہوئے کہا حضور یہ شرماتی بہت ہے شہزادی کی بیوی پولوں کا گہنا دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور اس نے کہا آج ہم تمہاری بانجی سے اپنے بالوں میں پول گنوائیں گے شہزادی کی دلی مراد بر آئی چمپا اپنے بال کھول کر بیٹھ گئی شہزادی نے اپنا کام شروع کیا اس نے بڑی سفائی سے پوری چوٹی کھات کر


اپنی چنگیز میں رکھ لی اور بڑی خوبصورتی سے پھولوں کی چوٹی لگا دی اپنے کام سے فاری ہو کر اس نے مالن سے کہا کالا جلدی گھر چلو میرے شہور نے تھوڑی دیر کی اجازت دھی تھی شہزادی کی بیوی نے اسے بہت سارا اعنام دے کر رکست کیا اور کہا جب تک تم یہاں ہو روز آیا کرو اس کے بعد شہزادی اور مالن دونوں سلام کر کے گھر واپس آ گئیں شہزادی نے جلدی جلدی کپڑے بدلے


اور موہات دو کر بڑیا سے کہا امہ! گنگٹ نکالے نکالے سر میں درد ہونے لگا ہے ذرا میں ہواکوری کو جاتا ہوں اس نے اپنا تھیلا اٹھایا اور گھوڑے پر سوار ہو کر بڑی تیز رفتاری سے چل پڑی دو گھنٹوں میں وہ میلوں دور نکل گئی گھوڑا بھی بہت دن سے آرام کر رہا تھا اسی وقت ہوا سے باتیں کرنے لگا شہزادہ! اپنے دس طور کے مطابق رات کو گیارہ بجے اپنے کمرے میں آیا


اور اپنی مسئری پر بیٹھ کر کہا چمپا اپنے بال کھولو اس نے چوٹی کھولنے شروع کی پولوں کی لڑیاں نکال کر جو اس نے بال کھولنا چاہا تو گدی سافتھی وہ گھبرا گئی اور شہزادی کی طرف دیکھنے لگی اس نے دوبارہ کہا پولوں کی چوٹیاں کیوں لگاتی ہو مجھے یہ سب بناؤٹی باتیں پسل نہیں میں صرف تیرے بال دیکھنا چاہتا ہوں تجھے اچھی طرح معلوم ہے


جس دن شہزادی نے تیری چوٹی کھاتنے کو کہا تھا اس دن میں اسے دھوکہ دے کر دجھے اڑھا لیا تھا وہ میری محسن تھی اس نے مجھے بہت پیار محبت سے رکھا تھا میں بھی اسے چاہتا تھا مگر تیرے بالوں نے مجھے احسان فرا موشھ بنا دیا چمپا خاموش گردن جھکائے بیٹھی رہی شہزادی نے ذرا اوچی اواز میں کہا آخر مسئلہ کیا ہے آج تم میرا حکم ادولی کیوں کر رہی ہو چمپا نے ہ


میں آپ کے حکم کی خلا ورزی نہیں کر رہی حضور میرے بال پتہ نہیں کہاں چلے گئے شہزادہ گبرا کر کھڑا ہو گیا اس نے خود چمپا کا سر دیکھا بجائے لمبے بالوں کے صرف چھوٹے چھوٹے پٹے رہ گئی تھے اس نے جھلا کر زور سے ایک تھپر چمپا کے مو پر لگایا اور بولا اب تو کس کام کی ہے مجھے تو صرف تیرے بال پسند تھے سچ سچ بتائی یہاں کون آیا تھا چمپا نے ڈرتے ڈرتے کہا


حضور اور تو کوئی نہیں آیا بڑیا مالن کی بھانجی آئی تھی اس نے میری چوٹی گنڈی تھی شہزادہ نے غصے کے لہجے میں کہا وہ بغیر ہمارے حکم کے یہاں کیوں آئی ہم نے تو صرف بڑیا کو آنے کی اجازت دے رکھی تھی شہزادہ غصے کی حالت میں ٹہل رہا تھا اور بار بار کہہ رہا تھا کون آیا کنگن کے دیس کس نے کاتے چمپا کے کس اس کی نظر دروازے پر پڑھی جہاں سے مالن آئی تھی


وہاں موٹے موٹے حروف میں لکھا تھا ہم آئے کنگن کے دیس ہم نے کاتے چمپا کے کیس شہزادی ماروخ شہزادہ کچھ دیر حیران سا کھڑا دیکھتا رہا پھر اس نے چمپا سے کہا شہزادی ماروخ تیرے بال کھڑ کر لے گئی اور تجھے خبر تک نہیں ہوئی بےقوف کہیں کی چمپا بولی حضور شہزادی تو بہت خوبصورت ہے وہ لڑکی تو بہت کالی تھی شہزادے نے


حقیقت میں جاہل آدمی کا دماغ بکار ہوتا ہے وہ دیکھ سامنے وہ لکھ کر گئی ہے یہ کہہ کر شہزادہ فوراً باہر چلا گیا اس نے سپائیوں کو حکم دیا ابھی بڑیا مالن کو پکڑ لاؤ اور جو کوئی بھی اس کے گھر میں ہو اسے گرفتار کر لاؤ شہزادہ کا حکم پاتے ہی سپائی دوڑ گئے آدھی رات گزر چکی تھی بڑیا لڑکے کے انتظار میں جاگ رہی تھی اچانک کہہ سپائی گھر میں گھس آئے اور ب


اور وہ رونے چلانے لگی ارے ڈاکو آگئے مجھے بچاؤ سپائیوں نے ڈاڈ کر کہا ہم ڈاکو نہیں شہزادہ صاحب کے سپائی ہیں ان کے حکم سے تجھے پکڑنے آئے ہیں بتا تیرے ساتھ اور کون کون رہتا ہے بڑیا ڈھر گئی اور سوچنے لگی یہ مسیبہ ضرور اس لڑکی کی وجہ سے آئی ہے شہزادہ کی بیوئی نے پہچان لیا ہوگا کہ وہ لڑکی نہیں تھی اس نے کامتی ہوئی آواز میں کہا


ایک میرا بھانچا آیا ہوا تھا۔ آٹھ بجے رات کو وہ کہیں گھومنے گیا تھا اور ابھی تک واپس نہیں آیا۔ میں اسی کے انتظار میں جاگ رہی تھی۔ سپائیوں نے کہا، اچھا تم ہمارے ساتھ چلو، شہزادہ نے تمہیں بھلایا ہے۔ دو سپائی بڑیا کو لے کر شہزادے کے پاس آئے، باقی اس کے بھانچے کے انتظار میں وہیں ٹھہر گئے۔ شہزادہ بڑیا کو ساتھ لے کر اپنے کمرے میں آیا اور ہنٹر اٹھا کر بھولا، سچ سچ بتا۔


سچ سچ بتا آج تو کس کو اپنے ساتھ لائی تھی ورنہ مار مار کر تیری خال کھیچ لوں گا حضور میں اس کو نہیں لا رہی تھی مگر بیگم سائبہ نے حکم دیا تھا کہ کل اسے ضرور لے کر آنا وہ بالکل کم عمر لڑکا تھا وہ زنانہ کپڑے پہن کر میرے ساتھ آ گیا اور اس کے ساتھ میں بھی یہاں بیٹھی تھی شہزادے نے ڈاڈ کر کہا جوٹ کیوں بولتی ہو وہ لڑکا نہیں لڑکی تھی


مالن نے ہاتھ جوڑ کر سارا قصہ سنایا اور بولی حضور میں تنہا رہتی ہوں پردیسی سمجھ کر اسے رکھ لیا تھا شہزادہ بولا اچھا صبح تمہیں پاسی دے دی جائے گی سپائیوں نے بڑیا کو حولات میں بند کر دیا تمام رات شہزادہ جاگتا رہا اس کو چمپا کے بال کٹ جانے کا بےہت افسوس تھا اور وہ شہزادہ کی بہادری پر حیرت کر رہا تھا اس نے ایسا خطرناک جنگل کیسے پار کیا


وہ اپنے اپر لانت ملامت کرتا رہا اس قدر خوبصور شہزادی کو چھوڑ کر اس کالی کلوٹی لونڈی کو کیوں منتخب کیا حقیقت میں یہ اس کی بہت توہین تھی اس کے باپ نے میرے اپر لاکھوں روپیہ غرچ کیا شہزادی مجھے اپنے ہاتھ سے کھلاتی تھی دنٹو میرے پاس استول میں بیٹھی رہتی تھی کئی بڑے بڑے شہزادوں کے بیغام آئے مگر اس نے شادی سے انکار کر دیا میں نے اس کو اپنی سہلیوں سے


کہ میری شادی تو گھوڑے سے ہو گئی ہے میں نے ایک عرضی چیز کو پسند کیا بال کھٹنے کے بعد چمپا میں کوئی خوی بھی نہ رہی مجھے اس کی سورت سے نفرت ہو گئی سپائیوں نے رات ہی کو ساری حقیقت کوتوال شہر کو جا کر بتا دی اور یہ بھی کہہ دیا کہ شہزادہ صاحب نے حکم دیا ہے کہ کل بڑیا کو پاسی دی جائے صبح سووے رے کوتوال وزیر کے پاس گیا اور یہ قصہ سنایا وزیر نے کہا


بغیر بازشاہ سلامت کے حکم کے کسی کو پھانسی نہیں دیجا سکتی اس کے علاوہ تم بتا رہے ہو کہ بڑیا نے شزادہ کی بیوی کے بلانے پر اس لڑکے کو لے کر گئی تھی اس کا بھی کسور ہے میں بازشاہ سلام سے جا کر کہتا ہوں جو ان کا حکم ہوگا اس پر عمل کیا جائے گا غرض وزیر نے خاص آدمی کو بازشاہ کے پاس بھیجا اور اکیلے میں بات کرنے کو کہا اسی وقت وزیر کی تلبی ہوئی


اس نے جو کچھ گرتوال سے سنا تھا وہ سارا بادشاہ کے سامنے بیان کر دیا بادشاہ نے جواب دیا تم جاؤ ہم شہزادہ سے خود پوچھیں گے وزیر آداب بجا لا کر اُلٹے قدموں واپس چلا گیا بادشاہ نے اپنے خواجہ سروں کا حکم دیا کہ شہزادہ کو بلا لاؤ تھوڑی دیر میں شہزادہ تیار ہو کر آ گیا لیکن تمام رات جاگنی کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور چہرا اداز تھا


پادشاہ نے بیٹے کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا ہم نے سنا ہے تم نے بوڑی مالکن کو پھانسی پر لٹکانے کا حکم دیا ہے بیٹا یہ سزادہ تو بڑے جرم میں دی جاتی ہے یعنی اگر مالن نے کسی کو جان سے مہار ڈالا ہو تو وہ پھانسی کی مستعک ہے تم بتاؤ اس کا قسور کیا ہے شزادہ بولا ابا جان وہ میرے محل میں ایک لڑکے کو لڑکی بنائے کر لے گئی تھی مجھے بہت غصہ آیا میں نے سپائیوں سے کہ


اس کو پھانسی پر لٹکو آ دیا جائے۔ بادشاہ نے کہا بیٹا اگر ان چھوٹی چھوٹی باتوںور بادشاہ اپنی ریائے کو پھانسی دلوائے دیا کرے تو ریائے اس کی نافرمان ہو جائے گی اور ملک چھوڑ کر چلی جائے گی شہزادے نے کوئی جواب نہیں دیا بادشاہ نے خواجہ سرا کو بلا کر حکم دیا بوڑی مالن کو حاضر کرو حکم کی دیر تھی مالن رسیوں میں بندی ہوئی مورن بادشاہ کے باس ح


بادشاہ نے تمام افراد کو جانے کا حکم دیا اور صرف شہزادہ وہاں بیٹھا رہا بادشاہ نے بوڑی سے پوچھا بتا وہ لڑکہ کون تھا جس کو تُو لڑکی بنا کر شہزادی کے محل میں لے گئی تھی مالہ نے جواب دیا قریب پرور وہ ایک قریب لڑکہ تھا میں ایک دن باگ میں پھول چن رہی تھی وہ لڑکہ میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا وہ بہت کم عمر تھا کوئی 13-14 برس کا ہوگا موچے تک نہیں نکلی تھی


اور حسین اتنا تھا کہ میں نے اپنی تمام عمر ایسا حسین نوجوان نہیں دیکھا تھا۔ مجھے وہ بہت اچھا لگا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ پردیسی ہے اور کسی سرائے میں ٹھہرا ہے۔ حضور میں بالکل اکیلی رہتی ہوں۔ میں نے اس سے کہا کہ تم سرائے کے بجائے میرے پاس آ کر ٹھہر جاؤ۔ وہ راضی ہو گیا اور اپنا گھوڑا اور کپڑا لے کر آ گیا۔ میں شہزادہ صاحب کی دلن کے لیے پھولوں کا گینہ بنا کر لاتی تھی


دو چار دن میں وہ بھی گہنا بنانا سیکھ گیا اور وہ مجھ سے اچھے گہنے بنانے لگا پرسو اس کے ہاتھ کا گہنا میں لے کر محل آئی تو دولن صاحبہ نے اسے بہت پسند کیا اس لڑکے نے مجھے اچھی طرح سکھا دیا تھا کہ شہزادی پوچھے تو اسے کہہ دینا کہ میری بھانجی سسرال سے آئی ہے یہ گہنا اس نے بنایا ہے میں نے شہزادے کی دلہن سے یہی کہہ دیا دولن صاحبہ نے مجھے حکم دیا کہ کل میں اس کو اپنے ساتھ لے کر محل میں آوں

میں نے بہت بحانے کیئے مگر انہوں نے کہا کہ اگر تم نہیں لائی تو میں تمہیں سزا دوں گی میں نے گھر جا کر لڑکے کو تمام قصہ سنایا اس لڑکے نے مجھے سمجھایا امہا ڈرو نہیں تھوڑی دیر کی تو بات ہے میں ایسی لڑکی بنوں گا کہ کوئی مجھے پہچان نہیں سکے گا حضور میری کم بختی تھی میں اس کی باتوں میں آ گئی اور اپنے ساتھ اسے لے آئی مگر باشا سلامت میں اس کے سامنے بیٹھ ہی رہی


اس نے تا دلہن سائبہ سے بات تک نہیں کی گنگٹ نکالے وہ ان کی بال سوارتی رہی شہزادہ نے غصی کے لجے میں کہا سوارتی رہی بڑیا بھولی جی سرکار اس کے بعد میں اس کو ساتھ لے کر چلی گئی وہ کپڑے بدل کر ہوا خوری کے لیے چلا گیا 12 بجے تک واپس نہیں آیا میں اسی کے انتظار میں جاگ رہی تھی کہ سپاہی مجھے پکڑ لائے اب حضور جو چاہیں سزا دیں شہزادہ نے پوچھا

مالنہ نے ہاتھ جوڑ کر کہا میں اپنی کھوٹڑی میں پڑھی تھی مجھے خبر نہیں کہ وہ کس پر گیا مگر جب سپاہی مجھے پکڑ لائے تو اس کا گھوڑا وہاں نہیں تھا شہزادہ نے اٹھ کر بڑیاں کی رسیوں کھول کر کہا جا تیرا کسور ماف کیا ابھی میری نظروں کے سامنے سے دور ہو جا بڑیا بچاری گرتی پڑتی ہزاروں دعائیں دیتی ہوئی وہاں سے چلی گئی باشا نے بیٹے سے کہا کل تو تم


آج اسے تم نے بالکل محاف کر دیا حالانکہ وہ زنانہ محل میں لڑکے کو لے کر گئی تھی یہ اس نے جرم کا کام کیا تھا شہزادہ نے گردن جکا کر کہا ابا جان وہ لڑکا نہیں تھا لڑکی تھی بادشاہ نے تاجوب سے کہا تمہیں کیسے خبر ہوئی شہزادہ نے جواب دیا ابا جان وہ شہزادی ماروخ تھی وہ مجھ سے انتقام لے نے آئی تھی میں اس کی لونڈی چمپا کو لے کر آ گیا تھا

مجھے اس کے بال بہت بسند تھے شہزادی چمپا کی چوٹی کات کر لے گئی بادشاہ نے مسکرہ کر کہا بڑی بہادر لڑکی ہے میں اس کی حمد و جرد سے بہت خوش ہوا مگر آج تک تم نے تفصیل سے مجھے حالات نہیں بتائے چھے مہینے تک کہاں غائب رہے تھے تم شہزادے نے تمام تفصیل بادشاہ کو سنا دی جنگل میں ایک بزرک کا ملنا ان سے منتر سیکھنا پھر گھوڑا بن کر جانا وغیرہ وغیر


کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد باشا بولا ہمارا تو مونہ ہی بنتا کہ شہزادی ماروک کے لئے تمہارا پیغام بھیجیں تم خود گھوڑا بن کر پھر وہاں جاؤ اور شہزادی سے اور اس کے باپ سے معافی مانگو اس کے بعد ہم خود تمہاری بارات لے کر جائیں گے بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم نے ایک لونڈی کو شہزادی پر ترجیدی با جان اب میں خود بہت شرمندہ ہوں وہ منتر بہت یاد کرتا ہوں مگر میں بھول گیا


بازشاہ نے کہا اگر تم شہزادی کو پسند کرتے ہو تو اس کے باپ کو خط لکھ ہو ورنہ وہ کہیں اور اس کی شادی نہ کر دیں اور چمپا کو نکال باہر کرو اس کی وجہ سے ہم اپنے برابر والوں سے بہت شرمندہ ہیں تمہاری ما اسی گم میں گلی جا رہی ہے شہزادہ بولا چمپا کو رات ہی میں نے مہل سے نکال دیا مجھے تو صرف اس کے بال پسند تھے اور دوسری طرف شہزادی نے رات و رات جنگل پار کیا اور وہ بابا کی جھوپڑی کے قریب پہنچی


ان کی جھوپڑی بند تھی اور اندر چراغ ٹیم ٹیم آ رہا تھا شہزادی سوچنے لگی اگر میں وہ یہاں ٹھہری تو ہو سکتا ہے شہزادے کے آدمی آکر پکڑ لیں وہ اپنے گھوڑے کی رسیہ پکڑے خاموشی سے باہر نکل آئی اب صبح ہو گئی تھی بھولی دیر اس نے آرام کیا گھوڑا بھی تھک گیا تھا وہ جنگل میں چرتا چھکتا رہا دوپیر سے پہلے وہ پھر روانہ ہو گئی اس طرح دو دن کی منزل ایک


وہ اپنے وطن پہنچ گئی ملکہ اور باشا لڑکی کی طرف سے مایوس ہو چکے تھے محل میں اداسی چھائی ہوئی تھی اچانک شہزادی محل میں داخل ہوئی لوڑیاں باندیاں خوشی خوشی باشا بیگم کے پاس اطلاع کرنے دورڈ پڑیں شہزادی سیدھی اپنی ماں کے پاس گئی اور چمپا کی چوٹی ان کے قدموں میں ڈال کر بولی امہ جان میں اپنی کوشش میں کامیاب ہو گئی انہوں نے بیٹی کو کلیجے

بادشاہ کو خبر پہنچی وہ فورا آئے بیٹی کی پیٹھ تبا کر بولے تم نے ہمارے آنے کا انتظار کیا ہوتا تو ہم اپنی فوج لے کر چڑھائی کرتے شہزادی بولی ابا حضور وہاں کوئی نہیں جا سکتا شہزادی نے تمام حال اپنے بادشاہ کو سنایا غرض اسی رات کو شہر میں چراغہ ہوا غریبوں اور محتاجوں کو غراد تقسیم کی گئی ایک ہفتے تک شہزادی نے ارام کیا

مگر وہ خاموش اور اُداز رہتی تھی، نا سیر و تفری سے بتلاب تھا، نا گھڑ سواری اور نا شکار کا شوک رہا۔ اپنے کمبر میں لیٹی رہتی تھی۔ یہ دیکھ کر اس کی صحیلیوں اور کنیزوں نے باشا سے کہا اور ایک دن باشا نے شہزادی کو بلا کر کہا بیٹی میری اور باشا سلامت کی خواہش ہے کہ تمہاری شادی کر دی جائے۔ شہزادی نے جواب دیا امہ جان


جس دن ابا حضور نے مجھے گھوڑا انائت کیا تھا میں نے اپنے دل میں اہت کر لیا تھا کہ میں اب شادی نہیں کروں گی جب تک وہ جانور کے روپ میں رہا مجھے اس سے بے ہت محبت ہو گئی تھی لیکن انسان کے روپ میں آ کر اس نے مجھے دگا دی شاید انسان کی یہی فطرت ہے اب میں شادی نہیں کروں گی مردوں کے ذہنیت بڑی خراب ہوتی ہے اگر آپ کسی دوسرے شہزادے سے میری شادی کر دیں گی تو وہ کسی اور لونڈی کو پسند کرے گ


میری کنیزوں میں بہت کونسورت اور بھی ہیں مگر چمپا جیسی بس صورت کو اُس شخص نے پسند کر لیا تو مجھے اب کسی پر بھروسہ نہیں رہا میری زندگی بہت آرام سے گزر رہی ہے اب زیادہ وقت عبادتِ الہٰی میں سرف کروں گی میں ایک مسافر خانہ بنوارہی ہوں جو کوئی گریم محتاج ہمارے شہر میں آیا کرے گا تین دن میں اس کو اپنے مسافر خانے میں ٹھارایا کروں گی پادشاہ بیگم خاموش ہو گئیں انہوں نے س


کہ شہزادی ابھی غصے میں ہے، آجسا آجسا ٹھیک ہو جائے گی۔ قصہ مختصر، شہزادی کا لنگر خانہ بن کر تیار ہو گیا۔ مسافروں کو وہ اپنے سامنے کھانا تقسیم کرواتی تھی۔ ایک دن، لنگر خانے کے دروقن نے آ کر کہا، حضور، ایک فقیرنی ایسی آئی ہے کہ کوئی مسافر اس کے ساتھ کھانا نہیں کھا رہا۔ پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، پاؤں میں چھالے پڑے ہیں، سر پر ایک بال نہیں، نہ کچھ


بس روتی رہتی ہے۔ شہزادی بولی، اسے ہمارے پاس لے کر آؤ۔ اسی وقت لونڈیاں گئی اور اس بڑیا کو لے کر شہزادی کے ہاں پہنچ گئی۔ شہزادی کو دیکھتے ہی وہ اس کے قدموں میں گر پڑی اور بولی، حضور میں آپ کے لونڈی چمپا ہوں۔ چمپا کا نام سنتے ہی شہزادی دس قدم پیچھے ہٹ گئی۔ اس نے نفرہ سے مو پھیر لیا، مگر اس کی حالتے ذار دیکھ کر اسے رحم آ گیا اور بولی،


تم اپنی زرنگا مسئری اور زریدرزی کپڑے چھوڑ کر یہاں کیوں آ گئی؟ وہ روتے ہوئے بولی حضور شہزادے کو میرے بال پسند تھے جب بال نہیں رہے تو انہوں نے ٹھوکریں مار کر مچھے نکال دیا میں جنگلوں میں ماری ماری پیرتی رہی ایک دن جنگل میں ایک ضعیف آدمی ملے انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیر کر راستہ بتایا اور میں وہاں سے چلی تو راستے میں جو تھوڑے سے بال میرے سر پر رہ گئ


سب لوڈیوں اور کنیزوں نے کہا بہت اچھا ہوا اپنے مالک کے ساتھ دغا کرنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔ شہزادی نے اس کو باشا بیگم کے پاس بھیج دیا اور کہلوا دیا ہم نے اس کا قصور ماف کر دیا یہ اپنی سزا کو پہنچ چکی ہے وہ بھی اسے ماف کر دیں۔ غرض یہ کہ وہ پھر شہزادی کی خدمت گاری میں لگا دی گئی شہزادی کو اب بھی سکون نہیں ہوا تھا وہ گھوڑے شہزادے سے ملنا چاہتی تھی۔


وہ دن رات اسی فکر میں رہتی تھی۔ ایک دن باشا سلامت کے پاس کنگن دیس کا علچی بہت سے توفیہ لے کر آیا اور شہزادے کا خط بھی لا کر دیا۔ خط میں شہزادے نے مافی مانگی تھی اور شہزادی ماروخ سے شادی کی درخواست کی تھی۔ بادشاہ نے علچی کو تو مہمان خانے میں ٹھہرنے کا حکم دیا اور وزیر کو بلا کر مشورہ کیا۔ وزیر نے جواب دیا، حضور شہزادی کے مشورے کے بغیر کوئی جواب نہیں دینا چاہیے۔


کیونکہ گھوڑہ آپ نے ہی ان کو توفے میں دیا تھا اور اس نے شہزادی کے ساتھ دھوکا کیا اب شہزادی کی مرضی ہے کہ وہ جو حکم فرمائیں اس پر عمل کیا جائی بادشاہ محل میں آئے اور اپنی بیگم کو شہزادے کا خط دے کر کہا تم ماروخ کو خط دکھا دو اور وہ جو بھی جواب دے وہ آکر ہمیں بتاؤ بادشاہ بیگم نے شہزادی کو بلا کر کہا بادشاہ سلامت تمہاری رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں


شہزادی کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی امہ جان مجھے ایک رات کی محولت دیجئے میں سوچ کر بتاؤں گی رات کو وہ بڑی دیر تک اس مسئلے پر غور کرتی رہی اس کو گھوڑے سے دیری لگاؤ تھا اس کے جانے کے بعد جو کچھ مشکلیں شہزادی نے جھیلیں وہ خود ہی سمجھتی تھی جنگلوں میں ماری ماری پھیری شادی کرنے سے انکار کر دیا اب خود شہزادہ اس سے شادی کرنے کی درخواست کر رہا ہے


اور مافی بھی مانگ رہا ہے لہٰذا انکار نہیں کرنا چاہیے مگر جس طرح اس نے میرا جی جلائیا میں بھی اس کو جلاؤں گی اس نے اپنے دل میں ایک منصوبہ بنائیا اور مطمئن ہو کر سو گئی دوسرے دن اس نے اپنی ایک سہلی کی معرفت باشا بیگم سے کہلوہ دیا کہ وہ باشا سلامہ سے کہہ دیں کہ اگر حقیقت میں وہ شادی کرنا چاہتا ہے تو خود آکر ماروک سے بات کرے چنانچہ باشا نے بھی


اپنے ملک کے بہترین توفے دے کر علچی کو رکست کیا۔ شہزادی کا پیغام سن کر شہزادہ فورن راضی ہو گیا اور اپنے خاص مشیروں کو ساتھ لے کر وہ روانہ ہو گیا۔ کچھ دن کے بعد وہ شہر میں داخل ہوا۔ اطلاع ملتے ہی باشا نے وزیر کو اس کے استقبال کے لیے بھیجا۔ ایک خاص محل میں شہزادے کی ٹھہرنے کا انتظام کر دیا گیا۔ دوسری دن صبح شہزادی نے اپنے خاص باگ میں


جہاں وہ شہ سواری کی مشک کرتی تھی۔ شہزادہ سے ملنے کا وقت مقرر کیا اور شاہی لباس پہن کر اپنی سہلیوں اور کنیزوں کو ساتھ لے کر باگ میں گئی۔ اس کے علاوہ چمپا کو شہزادوں جیسا لباس پہنو آ کر اس کے سر پر تاج رکھا اور ایک نیائید کیمتی گھوڑے پر سوار کر آ کر اپنے ساتھ لیا۔ وقت مقررہ پر خواجہ سراو نے شہزادے کو باگ میں پہنچا دیا۔


کہ شہزادی ایک حبشی غلام کے ساتھ شے سواری کی مشک کر رہی ہے وہ غصہ سے کامپنے لگا اور اپنی کمر سے خنجر نکال لیا شہزادی اس کے استقبال کو آگے بڑی چمپا اور سب کنیزوں کو وہیں ٹھہرنے کا حکم دیا اس نے شہزادے کے قریب جا کر کہا آپ کی تشریف آوری سے بڑی خوشی ہوئی شہزادے نے کوئی جواب نہیں دیا اور خنجر میان سے نکال لیا مگر شہزادی کے حسن و جمال کو دیکھ کر


اس کا ہاتھ نہیں اٹھ سکا اس نے غصہ کے لیجے میں پوچھا تم کس کے ساتھ گھڑھ دوڑھ کر رہی تھی؟ شہزادی نے مسکرہ کر کہا آپ کے غلام کے ساتھ شہزادے نے انتہائی غصہ کی حالت میں کہا میرا غلام یہاں کیسے آیا؟ شہزادی نے ہز کر کہا جیسے میری لونڈی کنگن دیز گئی تھی شہزادے نے اپنے خنجر کو اٹھاتے ہوئے پوچھا کیا تم اسے اپنے ساتھ لائی ہو؟ شہزادے نے جواب دیا


آپ کو میری لونڈی پسند آ گئی تھی مجھے آپ کا غلام پسند آ گیا شہزادہ نے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے کہا کیا تم نے مجھے یہاں ضلیل کرنے کے لئے بلایا ہے پہلے میں اس غلام کا سر تن سے جدہ کروں گا پھر تمہیں ماروں گا مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم اس قدر ضلیل ہو شہزادہ نے مسکرہا کر کہا شہزادہ صاحب غصے میں آپے سے باہر کیوں ہوتے ہیں اورتے ایسی حرکتیں نہیں کر سکتی وہ صرف ایک دفعہ کس


مجھے گھوڑے سے محبت ہو گئی تھی۔ اس نے میرے ساتھ دگا کی اور میری ایک ادنہ لونڈی کو لے کر چلا گیا اور مجھے غصہ دلہ گیا۔ کون آئے گا کنگن دیس؟ کون کٹے گا چمپا کے کس؟ میں خود دار شہزادی تھی۔ میں اپنی توہین کسی حال میں برداش نہیں کر سکتی تھی۔ اگر آپ مجھے تانہ دے کر نہ جاتے تو میں کبھی کنگن دیس نہ جاتی۔ اپنا تمام وقت عبادتہ علاہی میں گزار دیتی۔ آپ


میں بھی اپنے معاباب کی اقلوطی بیٹی ہوں میری پرورش بھی بڑے نازو ناہم کے ساتھ ہوئی تھی مگر میں نے کئی مہینوں جنگلوں کی خاک چانی آپ چمپا کے ساتھ عیش و عرام کے زندگی بسر کر رہے تھے اور میں شہروں اور بھیڑوں کے مو میں تھیں آپ نے مجھے پہلے ایک کمزور لڑکی سمجھ کر دھوکا دیا لیکن چمپا کے بال کٹ جانے کے بعد آپ کو مو کی کھانی پڑی اور اس وقت بھی آپ اپنی طاقت استعمال کرنا چاہت


اپنا خنجر میان میں رکھ لی جیے اور اس گلام کو پہچاننے کی کوشش کیجیے۔ اس نے چمپا کو قریب بلایا اور تاج زمین پر تھینکتے ہوئے کہا یہ آپ کی نور نظر چمپا ہے اگر آپ اس کو لے جانا چاہتے ہیں تو شوق سے لے جائیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ شہزادہ نے گردن جکا کر کہا میں تم سے بہت شرمندہ ہوں بلکہ میں تمہارا گناہ گار ہوں تم نے مجھ سے پورا پورا انتقام لے لیا۔


تمہیں اس گلام کے ساتھ دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ شہزادی نے مسکرہا کر کہا اور جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ گھوڑا جس کو میں اپنے ہاس سے کھیلاتی پھیلاتی تھی اور زیادہ وقت اس کے استبل میں گزارتی تھی وہ چمپا کو لے کر فرار ہو گیا تو میرے دل پر کیا گزری ہوگی؟ شہزادی نے ندامت سے کہا بار بار اس کا ذکر نہ دوراؤ میں اپنے کسور کی معافی مانگتا ہوں۔ شہزادی نے اس کی بات کو نظر انداز کرت


اپنی کنیزوں سے کہا شہزادے صاحب کے لئے کرسی لاؤ بڑی دیر سے کھڑے ہیں شہزادے نے مسکرہ کر کہا میں اپنا استبل دیکھنا چاہتا ہوں شہزادی نے جواب دیا جب گھوڑا نہیں رہا تو استبل بیکار تھا اس کا میں نے مسافر کھانا بنوا دیا اور ایک دن وہاں چمپا بھوکی پیاسی پھٹے کپڑے پہنے آئی تھی اس نے بتایا کہ اس کے بال کٹنے کے بعد آپ نے ٹھوکریں مار کر اس کو نکال دیا


جب عورت دل سے اتر جاتی ہے تو مرد اس کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں۔ شہزادہ بولا اس بات کو چھوڑو یہ بتاؤ جس مقصد کے لیے میں آیا ہوں اس کے مطالق تمہاری کیا رائے ہے؟ شہزادی نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا آپ ابا جان سے مل کر اپنا مقصد بیان کیجئے میں ان کا حکم نہیں ٹال سکتی۔ تھوڑی دیر شہزادہ یہاں بیٹھ کر بادشاہ سلامت کے پاس گیا۔


اور ان سے شادی کی درخواست کی بادشاہ نے جواب دیا بیٹا میں تم سے مل کر بہت خوش ہوا مگر تمہارے والی صاحب کی طرف سے پیغام آنا چاہیے اگر ہم نے تمہارے کہنے پر یہ رشتہ منظور کر لیا تو انہیں بہت دکھ ہوگا شہزادہ گردن جھکا کر بولا بادشاہ سلامت میں ابا جان کی مرضی سے آیا ہوں وہ آپ سے بہت شرمندہ ہیں میں نے آپ کو اور شہزادی کو بہت دکھ پہنچایا تھا


کہ میں اپنا کسور ماف کروا کر آوں۔ شہزادہ کی یہ بات سن کر بادشاہ نے اسے سینے سے لگا لیا اور بولا بیٹا ہم نے تمہیں ماف کیا اپنے والد کو ہمارا سلام کہنا اور کہنا کہ ہماری یہی ایک لڑکی ہے اگر آپ بزاتے خود براد لے کر آئیں تو ہم یہ رشتہ کرنے کو تیار ہیں شہزادہ اسی دن روانہ ہو گیا دونوں بادشاہوں کے درمیان علچی کے ذریعے شادی کی تاریخ مقرر ہوئی


اور بڑی دھوم دھام سے شادی کی رسم ادا ہوئی اور اس کے بعد شزادی اور شزادہ دونوں ہاں سے خوشی زندگی گزارنے لگے 

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow