دو شہزادوں کی ایک دلچسپ کہانی

دو شہزادوں کی ایک دلچسپ کہانی

Nov 13, 2024 - 03:10
 0  7
دو شہزادوں کی ایک دلچسپ کہانی
دو شہزادوں کی ایک دلچسپ کہانی


اسلام علیکم پیارے دوستو پرانے زمانے کا قصہ ہے کہ ایک بادشاہ تھا بادشاہ ہوتے ہوئے بھی بڑا جمہوریت پسند عوام دوست اور ریائیہ پرور تھا ہر کام ہر بات میں اپنی ریائیہ کی بھلائی سوچتا عوام بھی اپنے نیک دل خدا ترس بادشاہ سے بہت محبت کرتی تھی جب بادشاہ بڑا پے کی منزل کو پہنچا تو اسے خیال آیا میں اپنے مرنے سے پہلے کسی کو بادشاہت کے لئے نامزت کر دوں


بادشاہ کے دو بیٹے تھے نشید اور برزم شہزادہ نشید عمر میں شہزادہ برزم سے صرف تین سال بڑا تھا بادشاہ نے اپنے دونوں شہزادوں کو وقت کے حساب سے اچھی تعلیم و تربیت دلوائی تھی دونوں شہزادے بہت لایق اور بڑی سلحیتوں کے مالک تھے بادشاہ چاہتا تو بڑے اتمینان سے اپنے بڑے بیٹے شہزادہ نشید کو ولی اہد سلطنت نامزت کر سکتا تھا مگر وہ تو انصاب پسند باد


اس کی خواہش تھی کہ دونوں بیٹوں میں سے اس شہزادے کو ولی اہد سلطنت نامزت کرے جس کے دل میں لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ ہو لوگوں کی فلاحوہ بہبود اور محبت کرنے کا جذبہ ہو وہ خودگرز اور ظالم نہ ہو مگر دونوں بیٹوں میں سے کونسا شہزادہ ان صفات کا مالک ہے یہ جاننا بہت ضروری تھا بڑے غور و فکر کے بعد بالشاہ نے فیصلہ کر لیا کہ دونوں بیٹوں کا امتحان لیا جائے اور اس مقصد کے لیے وزیر سے مشورہ کرنے کے بعد


دونوں بیٹوں کو چھے ما کے لیے الگ الگ اپنی مملکت کے حصوں میں سفر پر بھیج دیا شہزادوں کو تاکیت کی کہ وہ جائیں اور چھے ما آباد آ کر اپنے سفر کے حالات سنائے ان حالات کو سن کر فیصلہ کیا جائے گا کہ ولی اہد سلطنت کے لیے کسے نامزت کیا جائے دونوں شہزادیں ایک ہی وقت میں الگ الگ سمتوں میں سفر پہ روانہ ہو گئے بادشاہ نے دونوں کے پیچھے جاسوس مقرر کر دئیے جو بادشاہ کو ان کے مطالق پل پل


سفر کرتے ہوئے شہزادہ نشید ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں ایک بڑیا اپنے بیمار بیٹے کے ساتھ رہتی تھی۔ دونوں ما بیٹے بری طرح غربت کا شکار تھے۔ پھر ایک کا بڑا پا اور دوسری کی بیماری۔ شہزادہ نشید کو ان کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ شاہی جاسوسی اکارندے شاید یہاں تک پہنچی نہیں سکے۔ اگر انہوں نے ابہ عزور کو ان کی مفلسی اور پریشانی کے اط


تو وہ شاہی خزانے سے ان ماہ بیٹے کیلئے ضرور وزیفہ مقرر کر دیتے اور بیماری سے علاج کا انتظام بھی وہ گھوڑے سے فورا نیچے اتر گیا آج ازی کے ساتھ اس نے بڑیا کو امہآسسلام علیکم کہاں کر مخاطب کیا بڑیا نے ایک طویل عرصے بعد اپنے بیٹے کے علاوہ کسی اور جوان کو دیکھا تھا جس نے امہآسسلام کہاں کر سلام کیا تھا بڑیا نے وہ علیکم اسلام کہاں کر اسے دعائے دی پھر پوچھا


کون سی ضرورت تمہیں لے آئی؟ معاف کرنا بیٹے میرے پاس تو تمہاری خدمت کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں دعایاں دے سکتی ہوں وہ میں نے دے دی شہزادہ نشید نے کہا امہ آپ نے مجھے بیٹا کہہ کر اپنی دعاوں سے نواز دیا یہی دعایاں میرے لئے بہت ہیں رہی خدمت کی بات تو آپ اپنے اس بیٹے کو حکم کریں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ یہ کہہ کر اس نے جھوپڑی کا جائزہ لیا بڑیا جواب میں خامو


تو وہ جھوپڑی سے باہر آ گیا گوڑے کی پیٹ پر رکھے سامان میں سے اشرفیوں کی ایک تھیلی نکالی اور پھر جھوپڑی میں واپس آ کر بڑیا کے سامنے رکھ دی وہ تھیلی بڑیا کے بیمار بیٹے سمیت نے اٹھا لی اور چند اشرفیوں تھیلی سے نکال کر اپنی ہتیلی پر رکھتے ہوئے کہا مصافر بھائی، آپ ان اشرفیوں سے ہماری گربت دور کرنا چاہتے ہیں شاید آپ کو اندازہ نہیں کہ یہ اشرفیوں ہماری گرب


وادشا کے سپاہی ہمیں چوری کے الزام میں گرفتار کر کے قید خانے میں ڈال دیں گے وہ پوچھیں گے کہ یہ عشرفیاں کہاں سے آئیں ہم کیا جواب دیں گے ہمیں تو معافی کریں ایسی مدد جو ہمیں اور مشکل میں ڈال دے ہمیں قطعی منظور نہیں شہزادہ نشید نے وہ ٹھیلی کچھ سوچتے ہوئے سمیت کے ہاتھ سے واپس لے لی اور کہا اچھا چلو ہم یہی رہ کر مہنت مزدوری کر کے تمہاری مدد کریں گے اس


اب شہزادہ نشید بوڑی ماں اور اس کے بیمار بیٹے سمیت کے ساتھ جھوپڑی میں ہی رہنے لگا وہ صبح سبے رے جنگل سے لکڑیاں کٹ کر آبادی میں فروخت کرتا اور اسی آمدانی سے اپنا اور ان دونوں کا گزارہ کرتا وقت پر دو وقت کھانا اور علاج اپنا رنگ لے آیا بوڑیاں کی کمزوری دور ہو گئی لڑکے کی بیماری بھی ختم ہو گئی اور وہ سحت مند ہو کر سخت مہنت مشکت کرنے کے قابل ہو گیا اب سمیت نے کہا


آپ نے ہماری اچھی مدد کی ہمیں ہمارے پیروں پر کھڑا کر کے زندگی گزارنے کیلئے قابل بنا دیا آپ کا بہت بہت شکریہ اللہ تعالی آپ کی مشکلات دور کرے اور ہر دخو مسیبت و پرشانی سے دور رکھے اور عجل عظیم عطا کرے آمین اب شہزادہ نشید نے سمیت اور اس کی ماں سے آگے سفر پر چلنے کی اجازت مانگی بڑیا نے اس کی پیشانی چومتے ہوئے آگے سفر پر جانے کی اجازت دے د


چھے ما کی مدد پوری ہونے میں چند دن باقی رہ گئے تھے اس نے سوچا اب آگے بڑھنے کے بجائے واپس مہل کی طرف چلنا چاہئے ابہ عزور اور ملکہ عالیہ امی جان میری واپسی کی منتظر ہوں گے اور پھر اس کے قدم مہل کی طرف جانے والے راستے پر آگے بڑھنے لگے ادھر شہزادہ برزم جب شہر سے باہر نکلا تو ڈاکوں کے چنگل میں فس گیا ایک ڈاکوں نے اس کی تلاشی لی تو عشرفیوں سے بھری کئی ت


انہوں نے سوچا اس معمولی سے آدمی کے پاس جب اشرفیوں کی کئی تھیلیاں ہو سکتی ہیں تو یہ کوئی معمولی آدمی نہیں ہوگا۔ وہ اسے پکڑ کر اپنے سردار کے پاس لے آئے۔ سردار نے جب تفصیل سنی تو شہزاد برزم سے کہا تم اگر ہمیں شاہی خزانے تک خوفیت طور پر پہنچا دو تو فر ہم تمہیں چھوڑ دیں گے۔ ورنہ ہمارے پاس ایک گلام کی حیثیت سے چھے ماہ رہنا پڑے گا اور ان چھے مہینوں میں ہم تمہیں


چند لگے سوچنے کے بعد شہزادہ ورزم نے ڈھیرے سے جواب دیا پھر ٹھہر کر بولا میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ 6 ماہ کی مدد پوری ہونے تک آپ کی شرط پوری کر دوں اگر میں ناکام رہا تو پھر بے شک آپ میرے ساتھ جو چاہے سلوک کریں شہزادہ نے اب مطمئن ہو کر شاہی خزانے کو ناکوںوں سے محفوظ رکھنے اور اپنی جان بچانے کی بات سوچنی شروع کر دی وہ جانتا تھا کہ شاہی خزانے میں جو کچھ ب


بادشاہ تو عوام کی فلاح کی خاطر ضرورت کے مطابق اسے خرچ کرتے ہیں اور خرچ کا بھی واقعیدہ حساب کتاب رکھا جاتا ہے دن گزرتے رہے اسی طرح پانچ مہا کا عرصہ گزر گیا اب شہزاد اپر سردار کی بات کا دباو بڑھتا جا رہا تھا آخر بڑے غورو فکر کے بعد اس کے ذہن میں ایک ترقیب آ گئی اس نے اپنے نگران ڈاکووں کی معرفت سردار کو پیغام بھیجو بیا کہ وہ اس مہینے دارالخلافہ میں جا کر


اور اپنے ساتھیوں کے حمرہ تاجروں کے بھیس میں رہے میں مناسب وقت پر شاہی خزانے تک پہنچنے کا راستہ بتا دوں گا آگے پھر آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا کام ہے یہ پیغام سنکر سردار بہت خوش ہوا اس نے سوچا شاہی خزانہ ہاتھ لگتے ہی نوجوان کو آزاد کرنے کے بجائے قتل کر دیں گے اور لوٹا ہوا خزانہ آپس میں تقسیم کر کے باقی معندہ زندگی آرام سے بسر کریں گے


سردار نے فوراں ہی شہر میں شاہی مہل کے قریب ایک آلی شان حویلی کرائے پر حاصل کر لی اور تاجروں کے بھیس میں سانتھیوں سمیت وہاں رہنے لگا شہزادہ برزم بھی ان کے ساتھ تھا اب اس کی نگرانی پر کچھ نرمی ہو گئی تھی اسے خوراگ بھی اچھی ملنے لگی تھی ایک دن شہزادہ حویلی کی والکنی میں کھڑا تھا اس نے دیکھا کہ اس کا اعتلیق بگی میں سوار شاہی مہل کی طرف جا رہا ہے اس نے پہلے


جو کہ ایک تاویز کی صورت میں لکھا تھا جیسے ہی بگی والکنی کے قریب پہنچی وہ تاویز بڑی ہوشیاری سے نیچے ہاتھ کر کے چھوڑ دیا تاویز نیچے گرا اطالیک نے ہاتھ میں لیتے ہی پہچان لیا کہ یہ تو شہزادہ ورزم کا ہے اسے خولا اور پیغام پڑھ کر اسے جیم میں رکھ لیا اسی رات ورزم نے سردار کو کہلوایا کہ میرے دیئے ہوئے نقشے کے مطابق رات کو ٹھیک ایک بجے سانتھیوں کے ساتھ ش


سردار نے نقشے کو دیکھا، سانتھیوں کو دکھایا اور اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد رات ٹھیک ایک بجے شاہی خزانے کی ایمارت کے قریب پہنچ گئی خزانے پر قبضہ کر لینے کے بعد انہوں نے بھاگ نکلنے کا راستہ بھی اچھی طرح ذہن نشی کر لیا تھا سردار جیسے ہی اپنے ڈاکو سانتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچا سپا سالار ہتیار بن سپاہیوں کے ساتھ پہلے ہی گھات لگائے بیٹھا تھا تھوڑ


کسی ایک کو بھی بھاگنے کا موقع نہیں مل سکا بادشاہ کو شاہی جاسوز پہلے ہی شہزادے کی کارغزاری سے آگا کر چکے تھے بادشاہ کو دونوں بیٹوں کی کارغزاری پسند آئی تھی دوسرے دن بادشاہ نے بڑے شہزادے نشیت کو ولی اہد سلطنت اور دوسرے یعنی شہزاد ورزم کو سلطنت کا وزیر دفعہ بنائے جانے کا اعلان کر دیا ریائیہ اس اعلان کو سن کر بہت خوش ہوئی سب بادشاہ کے فیصلے سے متفق

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow